’خود کُش بمبار 60 تا 80 لاکھ روپے میں‘
4 جولائی 2011گزشتہ کچھ عرصے کے دوران دونوں ہمسایہ ملکوں افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں کسی قدر سرد مہری آ چکی ہے۔ افغانستان کا الزام ہے کہ پاکستانی سرزمین سے فائر کیے گئے سینکڑوں گولے افغان سرزمین پر گرے ہیں جبکہ پاکستان اس الزام کو رَد کرتے ہوئے یہ کہہ ر ہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ چند ایک گولے اتفاق سے افغان سرزمین پر جا کر گرے ہوں گے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔
اسی پس منظر میں اب افغانستان کے خفیہ ادارے NDS یعنی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی نے کہا ہے کہ اُس کے ایجنٹوں نے پاکستانی شہریت کے حامل اس بمبار کو مشرقی صوبے پکتیا کے جاجی میدان ضلع میں حملہ کرنے سے پہلے ہی حراست میں لے لیا تھا۔
این ڈی ایس کی جانب سے اس بمبار کا نام شیر حسن بتایا گیا ہے، جسے مبینہ طور پر افغانستان میں برسرِ پیکار باغیوں کے خطرناک ترین گروپ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ حملہ آور باقاعدہ حقانی نیٹ ورک میں شامل نہیں تھا بلکہ اُس کے اپنے بیان کے مطابق اُسے ’عزیز اللہ‘ نامی ایک کمانڈر کو ہلاک کرنے کے لیے خریدا گیا تھا۔ ’عزیز اللہ‘ کون ہے اور اُس کا تعلق کس گروپ سے ہے، یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
مزید بتایا گیا ہے کہ شیر حسن نے اپنے خریدے جانے کے بعد ایک پورا مہینہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تربیت حاصل کرنے میں گزارا۔ افغان ادارے NDS کے مطابق ’زیر حراست شخص نے مزید بتایا کہ حکیم اللہ محسود کے زیر کمان ایک کمانڈر خود کُش حملہ آور فروخت کرتا ہے اور ایک حملہ آور کی قیمت 60 تا 80 لاکھ پاکستانی روپے (70 تا 93 ہزار ڈالر) وصول کی جاتی ہے‘۔
افغان انٹیلیجنس ادارے کے بیان میں نہ تو یہ بتایا گیا ہے کہ شیر حسن نامی اس مبینہ خود کُش بمبار کے لیے کتنی رقم ادا کی گئی اور نہ ہی یہ کہ اُسے کس طرح سے حراست میں لیا گیا۔
افغانستان میں طالبان نے مئی کے مہینے میں اپنے موسم بہار کے حملے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور تب سے افغانستان بھر میں پُر تشدد واقعات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ابھی چند روز پہلے کابل میں ہوٹل انٹرکانٹینینٹل پر خود کُش حملہ آوروں کے ایک گروپ کی جانب سے کیے جانے والے ایک حملے میں کم از کم دَس افراد مارے گئے تھے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ