خونریز فوجی بغاوت ناکام: ترکی میں قریب تین ہزار جج بھی معطل
16 جولائی 2016استنبول سے ہفتہ سولہ جولائی کے روز موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ترک نشریاتی ادارے این ٹی وی نے بتایا ہے کہ ایک رات پہلے کی ناکام لیکن خونریز فوجی بغاوت کے بعد حکومت نے آج ہفتے کے روز قریب پونے تین ہزار (2745) جج بھی معطل کر دیے تاکہ ملکی عدالتی نظام کو بغاوت پر اتر آنے والے فوج کے دھڑے کی سوچ کے حامی عناصر سے پاک کیا جا سکے۔
این ٹی وی نے بتایا کہ ان ججوں کو ان کے عہدوں سے برطرف نہیں بلکہ صرف معطل کیا گیا ہے اور فی الحال انہیں ان کے عدالتی فرائض کی انجام دہی سے روک دیا گیا ہے۔ مقامی یا چھوٹی عدالتوں کے ہزاروں ججوں کی برطرفی کا یہ فیصلہ ملکی ججوں اور پراسیکیوٹرز کی اعلیٰ کونسل، جسے اعلیٰ ترین جوڈیشل بورڈ (HSYK) بھی کہا جاتا ہے، کی طرف سے کیا گیا۔
سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق ان ہزاروں ججوں کی معطلی کے علاوہ اعلیٰ ترین جوڈیشل بورڈ کے پانچ اپنے ارکان بھی برطرف کر دیے گئے ہیں۔ جوڈیشل بورڈ کے ان ارکان کی ان کے عہدوں سے برطرفی کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان اعلیٰ عدالتی اہلکاروں کے خلاف چھان بین جاری ہے۔
باغیوں کے حامی فوجیوں کی گرفتاریاں مکمل
ہفتے کی سہ پہر استنبول سے ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق سرکاری نیوز ایجنسی انادولو نے لکھا ہے کہ ناکام بغاوت فوج کے ایک دھڑے کی طرف سے کی گئی تھی جبکہ ملکی مسلح افواج کے ارکان کی بہت بڑی اکثریت کی ہمدردیاں پہلے کی طرح اب بھی ترک ریاست اور حکومت کے ساتھ ہیں۔
ہفتے کی سہ پہر تک ملکی فوج نے انقرہ میں اپنے جنرل سٹاف ہیڈکوارٹرز میں باغیوں کے حمایتی فوجیوں کے خلاف اپنا آپریشن بھی مکمل کر لیا۔ اس کے علاوہ جنوب مشرقی ترکی میں ملکی فضائیہ کے دیاربکر کے علاقے میں قائم ایک بڑے فضائی اڈے سے بھی 100 کے قریب فوجی افسروں کو گرفتار کر لیا گیا۔
انقرہ اور استنبول سے آمدہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ پندرہ جولائی جمعے کی رات شروع ہونے والی فوجی بغاوت کی کوشش میں، جسے ہفتہ سولہ جولائی کی صبح تک ناکام بنا دیا گیا، مجموعی طور پر 265 افراد مارے گئے جن میں ایک باغی جنرل بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ 2839 فوجی اہلکاروں کو برطرف کر کے گرفتار بھی کیا جا چکا ہے، جن میں 29 کرنل اور پانچ جنرل بھی شامل ہیں۔ ان باغیوں کے ساتھی سات دیگر فوجی افسران آج ایک جنگی ہیلی کاپٹر کے ذریعے یونان ہمسایہ ملک بھی پہنچ گئے، جہاں انہوں نے اپنے لیے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے۔