خیبرپختونخوا میں مبینہ طور پر لڑکے کا غیرت کے نام پر قتل
15 مئی 2017زیرحراست تین افراد کے علاوہ مقتول کے ورثاء نے مزید دس افراد کو قتل کے مقدمے میں نامزد کیا ہے۔ یہ واقعہ گڑھی حبیب اللہ کے علاقے ’گلئی میرہ‘ میں پیش آیا۔ مقامی افراد کے مطابق عبدالسّتار نامی نوجوان کا ایک مقامی لڑکی سے ملنا جُلنا گاؤں والوں کو پسند نہیں تھا اور اُسے ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ تاہم اہلِ علاقہ کے منع کرنےکے باوجود عبدالستار گذشتہ روز اُس لڑکی سے ملنے آیا تھا۔
اس سلسلے میں جب ڈوئچے ویلے نےمقامی پولیس انوسٹی گیشن افسر نواز خان سے رابطہ کیا تو انہوں واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا، ’’مقامی لوگوں نے پہلے بھی عبدالسّتار کو منع کیا تھا اور ایک بار اُسے پولیس کے حوالے بھی کیا تھا تاہم اُسکے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ منع کرنے کے باوجود عبدالستار اُس لڑکی سے ملنے جاتا رہا اور اُسے سِم کارڈ اور فون بھی فراہم کیا جو پولیس نے برآمد کر لیا ہے۔‘‘
نواز خان نے مزید بتایا کہ بعد ازاں گاؤں والوں نے عبدالستار کو پکڑنے کا فیصلہ کیا اور وقوعہ کے روز جونہی عبدالسّتار اس لڑکی کےگھر سے باہر نکلا تو پہلے سے تاک میں بیٹھے دس سے زیادہ لڑکوں نے اسے پکڑ لیا۔ اس پر عبدالسّتار نے مقامی لڑکوں پر فائرنگ کی۔ پولیس افسر نواز خان کے مطابق ،’’جوابی فائرنگ سے عبدالسّتار زخمی ہوگیا۔ اُس پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گیا۔ پولیس نے تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ایک ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔‘‘
دوسری جانب مقتول کے والدین نے مقدمے میں مزید دس لوگوں کے نام دیے ہیں جنکی گرفتاری کیلئے پولیس متحرک ہوچکی ہے۔ مقتول کے ورثا کا کہنا ہےکہ انہیں پیسوں کے عوض صلح کی پیشکش کی گئی ہے لیکن وہ انصاف چاہتے ہیں اور قتل میں ملوث افراد کو سزا دینے کی اپیل کرتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں مشتعل افراد کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے واقعات میں اضافے کی وجوہات پر ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے سابق سیشن جج اور معروف قانون دان عالمزیب خان نے کہا،’’یہ ہمارے سسٹم کی کمزوری ہےکہ عوام کو انصاف فراہم کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جب مقدمات سالہا سال ایسے ہی لٹکتے رہیں، گواہان کو تحفظ حاصل نہ ہو اور پولیس کی تحقیقات درست اور بروقت نہ ہوں تو لوگ اسی طرح قانون کو ہاتھوں میں لیں گے۔‘‘
عالمزیب خان کا کہنا تھا کہ پولیس کو تحقیقات میں ایمانداری اور شفافیت سے کام لینا چاہیے۔ اگر نظام ٹھیک نہ ہوا تو لوگ خود ہی بدلہ لینے کے لئے اقدامات اٹھائیں گے۔