داعش سے آزادی کے سات سال بعد موصل کی راتیں اب پر رونق
29 ستمبر 2024عراقی شہر موصل میں اب راتیں پر رونق ہیں۔ ایسی ہی ایک رات امیرہ طحہٰ اپنی دوستوں کے ساتھ ایک ریستوران میں کھانے کے دوران لائیو موسیقی سے لطف اندوز ہوتی نظر آئیں۔ تاہم سات سال قبل شاید وہ ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر پاتیں۔
تب اس علاقے پر دہشت گرد تنظیم داعش کا قبضہ تھا۔ پھر سن 2017 میں عراقی سیکیورٹی فورسز اور بین الاقوامی اتحادی افواج نے داعش کو شکست دے کر موصل کو دوبارہ عراقی حکومت کی تحویل میں دے دیا تھا۔
امیرہ طحہٰ کا خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ موصل شہر میں تب سے لے کر اب تک بہت تبدیلی آگئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارے پاس اب آزادی ہے اور لوگوں کا راتوں کو اس طرح باہر نکلنا عام بات ہے کیونکہ اب سیکیورٹی کی صورتحال بہت مستحکم ہے۔‘‘
امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے سبب شہر میں نئے ریستوران بھی کھل گئے ہیں، دریائے دجلہ پر سیاحوں کے لیے کروز چلنے لگی ہیں اور شہری بڑی تعداد میں امیوزمنٹ پارکس کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔
داعش کے دور کا موصل
اس کے مقابلے میں آج سے دس برس قبل 2014ء میں داعش کے موصل پر قبضے کے بعد اس شہر میں ہر سو دہشت کا راج تھا۔ وہاں سگریٹ نوشی اور موسیقی پر پابندی تھی۔ گرجا گھروں اور عجائب گھروں میں توڑ پھوڑ کی جاتی تھی اور داعش لوگوں کو جرائم کا مرتکب اور غلط کام کرنے کا قصوروار قرار دے کر انہیں سر قلم کرنے اور سر عام سنگسار کرنے جیسی سزائیں دیتی تھی۔
اس دور کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ موصل کی داعش سے بازیابی کے کئی سال بعد تک وہاں کے شہری ان سے ابھر نہیں پائے۔
وہاں سے داعش کے خاتمے کے بعد اس شہر میں سب سے پہلے تو بارودی سرنگوں کا صفایا ضروری تھا تاکہ مکانات، انفراسٹکچر اور سڑکوں کی تعمیر نو کی جاسکے اور لاکھوں لوگوں کو دوبارہ اس شہر میں بسایا جاسکے۔
اب اس شہر میں حالات معمول پر آنے کے بعد اس کی آبادی 1.5 ملین ہے۔
’ہم سانس لے سکتے ہیں‘
اس کا حصہ احمد بھی ہیں، جنہوں نے رواں برس جون میں ’’شیف احمد دی سویڈ‘‘ نامی ریستوران کھولا تھا، جس میں روزانہ 300 سے 400 افراد کھانا کھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ سویڈن میں گزارا اور ریستوران کھولنا ان کے لیے ایک بڑا رسک تھا۔
احمد، جن کی عمر 40 سال کے قریب ہے، کہتے ہیں، ’’میرا ہمیشہ خواب تھا کہ میں واپس آکر اپنا کاروبارشروع کروں۔‘‘
دریائے دجلہ کے کنارے واقع ایک پارک کے مالک خلیل ابراہیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ پہلے لوگ جلد اپنے گھروں کو لوٹ جایا کرتے تھے لیکن اب وہ آدھی رات کو بھی ان کے پارک آرہے ہیں۔
انہوں نے اپنا پارک 2011ء میں کھولا تھا لیکن پھر یہ جنگ کے باعث بالکل تباہ ہوگیا تھا۔ تاہم نجی ذرائع سے ملنے والی مالی مدد سے اب اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔
اسی طرح ایک دیہاڑی دار مزدور جمال عبدالستار کہتے ہیں، ’’ہم یہاں آرام سے ہیں۔ ہم سانس لے سکتے ہیں۔ ہمارے پاس دریا ہے اور یہ ہمارے لیے کافی ہے۔‘‘
ح ف / م ا (اے ایف پی)