داعش کے خلاف واشنگٹن کی کامیابیاں ناکافی، امریکی حکام
22 جون 2016حالیہ کچھ عرصے کے دوران عراق اور شام کے متعدد علاقوں میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی پسپائی کے بعد اس شدت پسند گروہ کے ’ناقابل تسخیر‘ ہونے کا تصور تو ختم ہو گیا ہے لیکن امریکی خفیہ اداروں کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ شیعہ اور کرد جنگجوؤں کی داعش کے خلاف ان فتوحات سے یہ خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ شامی اور عراقی سنیوں کی طرف سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے حمایت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
امریکی حکام کو ایک اور خطرہ یہ بھی ہے کہ فلوجہ اور دیگر علاقوں میں شکست کے بعد ’دولت اسلامیہ‘ غیر روایتی جنگی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے یورپ، امریکا اور دنیا کے دیگر علاقوں میں نسبتاﹰ آسان اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی خفیہ ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فلوجہ میں شکست کا بدلہ لینے کے ’اسلامک اسٹیٹ‘ گوریلا جنگ کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے حکومتی اداروں اور تنصیبات کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
نام نہاد اسلامی خلافت قائم کرنے کے بعد داعش اپنے زیر قبضہ علاقوں سے تیل اور دیگر ذرائع آمدنی سے بے تحاشا دولت جمع کر رہی تھی، جسے وہ غیر ملکی جنگجوؤں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ علاوہ ازیں ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد وہ بغداد حکومت کے خلاف بھی منظم حملے کرنے کے قابل ہو چکی تھی۔
گزشتہ ہفتے امریکی صدر باراک اوبا نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس شدت پسند گروہ کے ہاتھوں سے کئی علاقے نکلنے کے بعد داعش کی اس آمدنی میں بھی کمی ہو رہی ہے، جس پر وہ بہت حد تک انحصار کر رہی تھی۔
داعش کے خلاف جنگ کے لیے امریکی صدر کے خصوصی مندوب برَیٹ میکگَرک نے رواں ماہ وائٹ ہاؤس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ عراق میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے جتنے علاقے پر قبضہ کر رکھا تھا، وہ اس میں سے نصف علاقہ دوبارہ کھو چکی ہے۔ علاوہ ازیں شام میں بھی اس کے ہاتھوں سے بیس فیصد علاقہ نکل چکا ہے جب کہ تیس فیصد تیل کے ذخائر پر بھی داعش کا قبضہ ختم ہو چکا ہے۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے ابھی حال ہی میں اعتراف کیا، ’’ہماری کوششوں کے باوجود اس گروپ کی دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت اور اس کی عالمگیر رسائی کم نہیں کی جا سکی۔‘‘
بعض ماہرین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ داعش کے خلاف شیعہ ملیشیا گروپوں کی فتوحات سے خطے میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم عراقی حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے برس کی نسبت داعش کے خلاف لڑائی میں شیعہ ملیشیا گروپوں کا کردار اب بہت کم ہو چکا ہے اور خطے کے سنی مسلمان اب ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو اپنی ’نجات دہندہ‘ کے طور پر نہیں دیکھتے۔ عراقی حکام کے مطابق خطے کے سُنی مسلمانوں کی جانب سے بھی عراقی فوج کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔