داعش کے خود کش حملوں میں بچوں کا مسلسل بڑھتا ہوا استعمال
17 اکتوبر 2016اس بارے میں ڈی ڈبلیو کی نامہ نگار جُوڈِتھ نوئرِنک نے اربیل سے اپنے ایک مراسلے میں لکھا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی طرف سے کیے جانے والے خود کش حملوں میں بچوں اور نوجوانوں کو بمبار جنگجوؤں کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان مسلسل زیادہ ہوا ہے۔
اس سلسلے میں جُوڈِتھ نوئرِنک نے ایک ایسے 15 سالہ نوجوان کی مثال بھی دی، جسے ابھی حال ہی میں عراقی شہر کرکوک میں شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد پر خود کش حملے سے پہلے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اس نابالغ لڑکے کی گرفتاری کے بعد جب دو پولیس اہلکاروں نے اس کے دونوں بازوؤں کو ہوا میں بلند کر رکھا تھا اور اس دوران جب وہ دھماکا خیز جیکٹ ناکارہ بنائی جا رہی تھی، جو اس نے پہن رکھی تھی، تو یہ لڑکا خاموش کھڑا تقریباﹰ خالی آنکھوں سے ان پولیس اہلکاروں کو دیکھتا رہا تھا۔
اس لڑکے کو داعش نے اگست کے مہینے میں اسی کی عمر کی ایک دوسرے لڑکے کے ساتھ کرکوک بھیجا تھا، جہاں ایک لڑکا تو شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد میں ایک خود کش بم دھماکا کرنے میں کامیاب رہا تھا جبکہ دوسرے کو ایک دوسری مسجد کے سامنے سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
داعش نے پچھلے کچھ عرصے سے اپنے ہلاکت خیز بم حملوں کے لیے زیادہ تر نابالغ بچوں کو خود کش جنگجوؤں کے طور پر استعمال کرنے کا مسلسل بڑھتا ہوا رجحان اپنا لیا ہے، اس کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ کرکوک سے گرفتار کیے جانے والے ٹین ایجر جہادی کی گرفتاری کے محض چند ہی روز بعد اکٹھے چار نابالغ لڑکے داعش کی طرف سے اکثریتی طور پر شیعہ آبادی والے شہر کربلا میں متعدد خود کش حملے کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اسی طرح اس سال مارچ میں بھی جنوبی عراق میں ایک نوجوان لڑکا ایک فٹ بال میچ کے دوران خود کش حملہ کرنے میں کامیاب رہا تھا۔
یہی نہیں داعش کے پراپیگنڈا مواد میں بھی زیادہ سے زیادہ بچوں اور نوجوانوں کو اس دہشت گرد تنظیم کی سوچ کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس گروہ کی ایک ویڈیو میں پانچ لڑکوں کو شام سے گرفتار کیے گئے کردوں کو قتل کرتے دکھایا گیا ہے۔
ان پانچ لڑکوں نے داعش کے جنگجوؤں جیسے لباس پہن رکھے تھے۔ انہوں نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیر حراست قیدیوں کو پستولوں سے فائرنگ کر کے قتل کیا۔ ان بچوں میں سے ایک خود بھی کرد تھا اور باقی برطانیہ، مصر، تیونس اور ازبکستان سے تعلق رکھنے والے چار غیر ملکی جہادیوں کے بیٹے تھے۔
قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ داعش جن بچوں اور نوجوان لڑکوں کو اپنی خونریز کارروائیوں کے لیے استعمال کرتی ہے، انہیں اس تنظیم کی جہادی قیادت ’دولت اسلامیہ‘ کی ’خلافت کے شہریوں کی نئی نسل‘ قرار دیتی ہے۔
داعش کی جو بہت سی ویڈیوز ماضی قریب میں منظر عام پر آئی ہیں، ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس گروہ کے جہادیوں نے مختلف تربیتی مراکز میں گزشتہ صرف دو برسوں کے دوران ہزاروں نوجوانوں کو جہاد کی ٹریننگ دیتے ہوئے ہلاکت خیز کارروائیوں کے لیے تیار کیا ہے۔
یہ نوجوان اکثر یا تو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں کے اپنے بچے ہوتے ہیں، یا پھر شام اور عراق میں اس گروہ سے ہمدردی رکھنے والے خاندانوں کے نوجوان یا پھر ایزدیوں سمیت مختلف مذہبی برادریوں کے وہ لڑکے جنہیں داعش اغوا کر لیتی ہے۔ ایسے ہی ایک جہادی تربیتی کیمپ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے دو لڑکے احمد اور عامر امین تھے، جن کی عمریں بالترتیب 16 اور 15 برس ہیں۔
اسی طرح ایک اور لڑکے عبدالجلال نے، جس کی عمر صرف 13 برس ہے، اغوا کے بعد اپنے 11 سالہ بھائی کے ساتھ داعش کے ایک ٹریننگ کیمپ میں نو ماہ گزارے لیکن بالآخر یہ دونوں بھائی وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
احمد، عامر امین، عبدالجلال اور اس کے بھائی نے ڈی ڈبلیو کو مختلف اوقات میں دیے گئے انٹرویوز میں کہا کہ داعش کے ان کیمپوں میں انہیں خاص طور پر پرتشدد واقعات کے ذریعے خونریزی کا عادی بنایا جاتا تھا، وہ بھی اس طرح کہ جیسے کسی کو قتل کرنا یا کوئی خود کش بم دھماکا کرنا کسی ’بہت عام سی، معمولی سی بات‘ کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔
’’اس سلسلے میں جس ایک بات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا، وہ موت کے فوری بعد سیدھا جنت میں جانے کا وعدہ تھا۔‘‘