دنیا بھر میں بچوں کی اموات کا سب سے بڑا سبب نمونیا
31 جنوری 2011ڈبلیو ایچ او نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ نمونیا کا شکار ہو کر ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد میزلز یا خسرے، ملیریا اور ایڈز جیسی تین مہلک بیماریوں کے سبب ہونے والی بچوں کی اموات کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔
اس سلسلے میں ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے ممالک میں ہر سال نمونیا کے 156 ملین نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ ان میں سے 8.7 فیصد کیسز نہایت سنگین نوعیت کے ہوتے ہیں، یعنی اُن میں جان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اور انہیں ہسپتال میں داخل کرانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ہر سال بچوں میں نمونیے کے نئے کیسز میں مبتلا ہونے والے پانچ سال سے کم عمر بچوں کی سب سے بڑی تعداد بھارت میں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی بھارتی شاخ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال بھارت میں 43 ملین ایسے نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ چین اس سلسلے میں دوسرے نمبر ہے، جہاں ہر سال 21 ملین جبکہ پاکستان میں 10 ملین بچے ملیریا کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ محض بھارت میں ہر سال چار لاکھ دس ہزار بچوں کی جانیں نمونیا کے سبب ضائع ہو جاتی ہیں۔
طبی ماہرین کے متعدد تحقیقی جائزوں کے مطابق افسوس ناک امر یہ ہے کہ نمونیا سے بچوں کی اموات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اس کے بہت سے طریقے ہیں۔ مثلاً نمونیا سے بچاؤ کے لئے بچوں کو ایسے ٹیکے لگائے جا سکتے ہیں، جن سے ان کے اندر اس موذی بیماری کے خلاف Immunization یا قوتِ مدافعت پیدا ہو جائے۔ اس کے علاوہ اگر بچے کے اندر نمونیا کے مرض کی تشخیص وقت پر ہو جائے تو بچے کو ممکنہ علاج کے ذریعے بچایا جا سکتا ہے۔ طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیر خوار بچوں کو مائیں اگر چھ ماہ تک اضافی طور پر اپنا دودھ پلائیں تو بھی بچے پر نمونیا کے حملے کے امکانات بہت کم ہو سکتے ہیں اور گھروں کے اندر ہوا میں آلودگی کم ہونے سے بھی بچوں کو نمونیے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں طبی ماہرین نے ایک نہایت اہم نکتہ اٹھایا ہے اور وہ یہ کہ دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال عام ہونے کے سبب مریضوں کے اندر، جن میں بچے بھی شامل ہیں، ان اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی بیماریوں کے لئے کیا جانے والا علاج غیر مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں محققین اس امر پر غیر معمولی زور دے رہے ہیں کہ نمونیا سے بچاؤ کے لئے بچوں کے اندر اس موذی بیماری کے خلافقوتِ مدافعتت پیدا کی جانی چاہئے۔ اس کے لئے Pneumococcal vaccines (PCV) ٹیکے ایجاد ہو چکے ہیں۔ تاہم تیسری دنیا کے ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں اب تک عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اور مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے لئے دستیاب ادویات اور ٹیکے وغیرہ اتنے گراں ہیں کہ بہت کم لوگ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ 2015ء تک دنیا بھر میں بچوں کی اموات میں دو تہائی کمی کا ہزاریہ ہدف تبھی پورا ہو سکے گا، جب زیادہ سے زیادہ بچوں کوPneumococcal vaccines (PCV) دی جائے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی