دنیا میں عدم استحکام کا ایک نیا دور؟ ایک چشم کُشا رپورٹ
28 جنوری 2016اس رپورٹ کے مطابق آج کل عالمی آبادی کا دس فیصد سے کم حصہ انتہائی غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ پچیس سال پہلے یہ شرح تقریباً چالیس فیصد تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انتہائی غربت کے شکار انسانوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔
گزشتہ سال ہونے والی ایک اور مثبت پیشرفت پیرس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے آگے بند باندھنے کے موضوع پر اتفاقِ رائے سے طے ہونے والا معاہدہ تھا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کئی برسوں کے طویل اور پیچیدہ مذاکرات کے بعد تہران اور اہم ترین عالمی طاقتوں کے مابین طے پا جانے والے معاہدے کو بھی بلاشبہ ایک اہم اور مثبت پیشرفت قرار دیا جا سکتا ہے۔
2015ء خطرناک تنازعات میں اضافے کا سال
ان چند ایک مثبت تبدیلیوں کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو 2015ء ایک ایسا سال تھا، جس میں دنیا بھر میں ایسے خطرناک تنازعات میں اضافہ ہوا، جن کے اثرات متعلقہ ممالک کی سرحدوں سے آگے تک بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی کے حوالے سے اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں مشرقِ وُسطیٰ میں مختلف ممالک کی موجودہ سرحدوں پر بھی سوالیہ نشان لگنے لگے ہیں۔ 2015ء میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مہاجرین کا سنگین ترین بحران بھی دیکھنے میں آیا، جو اسی خانہ جنگی کا نتیجہ ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق دہشت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی سرگرمیاں بھی شام اور عراق تک محدود نہیں رہیں بلکہ جہاں کہیں بھی طاقت کا خلاء نظر آتا ہے، وہاں آئی ایس کا اثر و رسوخ دکھائی دینے لگتا ہے۔ پیرس حملوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تنظیم اپنے دہشت پسندانہ حملوں کے لیے یورپ کی کھلی سرحدوں کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔
یورپی اتحاد خطرے میں
میونخ سکیورٹی کانفرنس کی اس رپورٹ میں براعظم یورپ کو درپیش دیگر خطرات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، مثلاً یہ کہ نہ صرف یوکرائن کا تنازعہ بدستور جاری ہے بلکہ پناہ کے متلاشی افراد کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے باعث یورپ میں اتحاد کا عمل خطرے میں نظر آنے لگا ہے۔ قوم پرست قوتیں زور پکڑتی جا رہی ہیں اور شینگن زون بھی خطرے سے دوچار نظر آتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مختلف یورپی ممالک ان بحرانوں سے نمٹنے کے سلسلے میں لاپرواہی یا بے عملی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کم از کم شام یا پھر یوکرائن کے تنازعات میں شدت آنے کی ایک وجہ امریکا کا پیچھے ہٹ جانا ہے، جو سابقہ تنازعات کے حل میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی واضح ہو گیا کہ یورپی ممالک خارجہ اور سلامتی کے امور کی کوئی ویسی قابلِ اعتبار پالیسی اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کا ذکر لزبن معاہدے میں کیا گیا تھا۔
ایک غیر مستحکم دور کی آمد آمد
روس اور یورپی ممالک کے درمیان تعلقات بدستور خراب ہیں۔ مشرقِ وُسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اتنے خراب کبھی بھی نہیں رہے، جتنے کہ آج کل ہیں۔ روس اور ترکی کے تعلقات میں بھی تیزی سے کشیدگی آئی ہے۔ مشرقِ بعید میں چین کی توسیع پسندانہ پالیسیاں دیگر ممالک میں بے چینی پیدا کر رہی ہیں اور یہ ممالک امریکا کے زیادہ بھرپور کردار کی خواہش کر رہے ہیں۔
اس پس منظر میں یہ رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ 2016ء بھی ممکنہ طور پر بڑھتے ہوئے خطرات کا سال رہے گا، جس میں براہِ راست مسلح جھڑپوں کا بھی امکان ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ایک غیر مستحکم دور شروع ہونے والا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ بتانا مشکل ہے کہ بین الاقوامی برادری کو ان حالات میں کیا کرنا چاہیے لیکن یہ کہ عالمی برادری ان مسائل کے حل کا آغاز اس بات سے کر سکتی ہے کہ مختلف ممالک ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کریں اور مسائل کو مل جُل کر حل کرنے کی کوشش کریں۔