1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتاسرائیل

دو ریاستی حل کا نظام الاوقات وضع کیا جائے، عالمی برداری متفق

13 ستمبر 2024

مسلم اور یورپی ممالک کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں غزہ میں جاری مسلح تنازعے کے خاتمے کے طریقوں پر بات چیت کے بعد بین الاقوامی برادری نے زور دیا ہے کہ اسرائیلی۔ فلسطینی تنازعے کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل ناگزیر ہے۔

https://p.dw.com/p/4kbur
SPAIN-ISRAEL-PALESTINIANS-COURT-ICJ-DIPLOMACY-CONFLICT
ہسپانوی وزیر خارجہ خوزے مانوئیل الباریس نے اس کانفرنس کی میزبانی کی تصویر: AFP via Getty Images

ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں جمعے کے روز منعقد ہونے والی اس بین الاقوامی کانفرنس میں متعدد مسلم اور یورپی ممالک کے سفارت کاروں نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے سیر حاصل گفتگو کی۔

اس دوران اتفاق کیا گیا کہ دو ریاستی حل ہی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا ایک پائیدار حل ہے۔ اس میٹنگ کے شرکاء اس بات پر متفق ہوئے کہ اسرائیلی۔ فلسطینی تنازعے کے دو ریاستی حل پر عمل درآمد کا نظام الاوقات وضع کیا جائے۔

ہسپانوی وزیر خارجہ خوزے مانوئیل البارایس نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک اور کوشش کے سلسلے میں یہ ملاقات کی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تشدد کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جانا مقصود ہے اور اس تناظر میں دو ریاستی حل پر عمل درآمد ہی واحد راستہ ہے۔

مغربی کنارے میں ماری جانے والی عائشے نور کی لاش ترکی منتقل

غزہ میں اقوام متحدہ کے چھ اہلکاروں کی ہلاکت پر غم و غصہ

اس میٹنگ میں ناروے اور سلووینیہ کے وزرائے خارجہ سمیت یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزیپ بوریل، فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد مصطفیٰ اور غزہ کے لیے عرب اسلامی رابطہ گروپ کے ارکان بھی شرکت کر رہے ہیں، جن میں مصر، سعودی عرب، قطر، اردن، انڈونیشیا، نائیجیریا اور ترکی بھی شامل ہیں۔

اٹھائیس مئی کو اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ایک ایسی متحدہ فلسطینی ریاست کو  باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا، جس میں غزہ کی پٹی اور مغربی کنارہ شامل ہیں اور مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہے۔ یوں اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 146 اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔

دو ریاستی حل کیا ہے اور اس مقصد کے حصول میں کیا کیا مسائل حائل ہیں؟

ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے اس خطے میں دو خود مختار ریاستوں کے بقائے باہمی کو خطے میں امن کا واحد قابل عمل راستہ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ اس طرح کا دو ریاستی حل سن 1991 کی میڈرڈ کانفرنس اور سن  1993-95 کے اوسلو معاہدے میں طے پایا تھا لیکن امن عمل برسوں سے تعطل کا شکار ہے۔

تاہم غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کے مابین گزشتہ گیارہ ماہ سے جاری مسلح تنازعے اور مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے پرامن حل کی تلاش کے لیے کوششوں پر دوبارہ توجہ مرکوز ہوئی ہے۔

غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد اب 41 ہزار سے زائد

غزہ پٹی میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سے جاری جنگ میں اسرائیلی فوج کی زمینی اور فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 41,118 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

ان اعداد و شمار میں فلسطینی جنگجوؤں اور عام شہریوں کے مابین کوئی فرق نہیں کیا گیا تاہم یہ بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے تھے۔

جرمنی کا غزہ کی امداد میں 55 ملین ڈالر اضافے کا وعدہ

غزہ میں جنگ بندی: جرمن وزیر خارجہ کا دورہ مشرق وسطیٰ شروع

غزہ میں اسرائیلی ملٹری آپریشن کے سبب اس فلسطینی خطے کا زیادہ تر حصہ تباہ ہو چکا ہے اور اس کی کُل 23 لاکھ کی آبادی میں سے 90 فیصد باشندے بے گھر ہو چکے ہیں۔

سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں 1,205 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ جبکہ حماس کے جنگجو لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر غزہ پٹی کے لے گئے تھے۔ اس کارروائی کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔

غزہ کے اس مسلح تنازعے نے علاقائی کشیدگی کو بھی بڑھا دیا ہے جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی تشدد میں اضافہ ہوا ہے، جو غزہ سے الگ فلسطینی علاقہ ہے۔ گزشتہ بدھ کے روز سے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال میں جاری اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں وہاں بھی کم از کم 24 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ مشرق وسطیٰ کو ہی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، اس لیے اس کے فوری حل کی کوششیں تیز تر کر دی جانا چاہیں۔ میڈرڈ میں جمعے کے دن ہوئی کانفرنس کا مقصد بھی اس کشیدگی میں کمی لانا تھا۔

ع ب/ م م / ش ر (اے پی، اے ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)

’فلسطینیوں کی سلامتی کے بغیر اسرائیلی سکیورٹی ممکن نہیں‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں