1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر لیکن حکومت کی فقط نعرے بازی

عبدالستار، اسلام آباد
17 جولائی 2023

وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کے مطابق ان کا یہ مشن ہے کہ وہ دو کروڑ ’آؤٹ آف اسکول‘ بچوں کو ایجوکیشنل نیٹ ورک میں واپس لائیں گے لیکن ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ یہ فقط ’نعرے بازی‘ ہے۔

https://p.dw.com/p/4U0Xg
 پاکستان میں تعلیم کے مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں
 پاکستان میں تعلیم کے مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جا رہے ہیںتصویر: DW

 پاکستان میں تعلیم کے مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ ملک بھر میں ہزاروں ایسے اسکول ہیں، جن کی نہ چار دیواری ہے، نہ چھت اور نہ ہی بیت الخلا کی سہولت۔ کئی اسکولوں میں تو پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔

توجہ کا فقدان

صوبہ سندھ کے حوالے سے خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں پر ہزاروں اسکول غیر فعال ہیں، جنہیں فعال کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی ہیں۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی توجہ اصل تعلیمی مسائل پر نہیں ہے اور وہ دوسرے معاملات پر پیسے خرچ کرتی ہے، جس سے وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور پیسہ بھی۔

پاکستان، یکساں تعلیمی مواقع کی کمی اور غریب بچوں کا المیہ

 اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی معروف ماہر تعلیم بیلا رضا جمیل، جو ادارہ تعلیم و آگہی کی سربراہ بھی ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نئے اسکولوں کی عدم تعمیر، معیاری تعلیم کی کمی اورکم تعلیمی بجٹ ان چند وجوہات میں سے ہیں، جن کی وجہ سے بہت سارے بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ خصوصی بچوں کے لیے نصاب متعارف

بیلا رضا جمیل کے مطابق پاکستان میں انرولمنٹ کی شرح بہت کم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ شرح میٹرک کے لیول پر 27 سے 30 فیصد ہے۔ مڈل کی لیول پر 40 فیصد ہے اور پرائمری کی سطح پر نیٹ انرولمنٹ 65 فیصد ہے۔‘‘

Pakistan Kinderarbeit
 پاکستان میں تعلیم کے مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جا رہے ہیںتصویر: Rafat Saeed/DW

 ان کا کہنا تھا کہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ سندھ میں آٹھ ہزار کے قریب ایسے اسکول ہیں، جنہیں شیلٹر لیس کہا جاتا ہے، ''ایسے اسکول ایک ٹیچر اور کچھ فرنیچر کی مدد سے کسی بھی جگہ قائم کر دیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے کچھ اسکولوں کے لیے چوکیدار بھی متعین کیے گئے ہیں۔‘‘

ترجیحات کا مسئلہ

دنیا کے کئی ممالک میں پرائمری تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور کئی جمہوری ملکوں میں 10 یا بارہ گریڈ تک تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن کچھ ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ پاکستان میں پرویز مشرف کے دور سے خصوصا اعلی تعلیم پر زیادہ توجہ ہے جبکہ پرائمری اور ثانوی تعلیم کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

Pakistan Kinder und Wirtschaft / AFP Story 02-2023
 پاکستان میں تعلیم کے مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جا رہے ہیںتصویر: ARIF ALI/AFP

 کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں کی تعمیر پر بہت توجہ ہے جبکہ اسکولوں پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' 1994 میں پاکستان میں صرف 20 یونیورسٹیز تھی لیکن اب 200 سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں۔ ایک طرف حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر توجہ نہیں اور دوسری طرف قدرتی آفات نے بھی اسکولوں کے نظام کو بہت متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف سندھ میں حالیہ سیلابوں کی وجہ سے 19 ہزار کے قریب اسکول متاثر ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی مختلف سیلابوں یا قدرتی آفات میں اسکول متاثر ہوئے اور ان کی بحالی کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا۔‘‘

ملک پر اصل بوجھ ’ڈگری یافتہ جاہل‘ ہیں!

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ماہر تعلیم سبین یونس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نظام تعلیم میں بہت سارے اسٹرکچرل مسائل ہیں، جن کو حل کرنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ تھوڑے سے پرانے اعداد و شمار ہیں لیکن ان کے مطابق بلوچستان کے 22 ہزار دیہات میں سے صرف 12 ہزار دیہات میں اسکول ہیں اور ان 12 ہزار دیہات میں بھی سات ہزار اسکول ایک کمرے والے ہیں۔ بالکل اسی طرح سندھ میں پرائمری اسکولوں کی ایک بڑی تعداد صرف دو کمروں پہ مشتمل ہے۔‘‘

سبین یونس کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک کمرے اور دو کمرے کے اسکولوں کا خیال پرائمری اسکولوں کے لیے کس کے ذہن میں آیا، ''کیونکہ پرائمری اسکولوں کے لیے بھی کم از کم پانچ کمرے ہونے چاہیئں۔ جب اسکول اتنے چھوٹے ہوں گے، تو لازمی بات ہے بہت سارے بچوں کو اسکول میں داخلہ نہیں ملے گا اور بچے آؤٹ اف اسکول ہی رہیں گے۔‘‘

اساتذہ کی دوسری ذمہ داریاں

 سبین یونس کے مطابق اساتذہ سے تعلیم کے علاوہ کئی اور کام لیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے بھی نظام تعلیم خراب ہوتا ہے، ''جب اساتذہ مردم شماری انتخابات اور دوسرے کاموں میں مصروف ہوں گے تو وہ کلاسز نہیں لے سکیں گے، تو اسکولوں میں بچوں کے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ سے بھی بہت سارے بچے اسکول چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ پڑھائی نہیں ہو رہی۔‘‘

نظام تعلیم کو بہتر بنایا جا سکتا ہے

پاکستان میں تعلیم کے گرتے ہوئے معیار سے بہت سارے لوگ نا امید ہیں لیکن ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ اس کو ابھی بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد کا خیال ہے کہ پاکستان میں بہت سارے بچے محنت مزدوری کرتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے گھر والے فاقوں کا شکار ہو جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے بچوں کو اسکولوں کی طرف راغب کرنے کے لیے ان کے والدین کو ماہانہ کچھ وظیفہ دیا جائے اور جو بچے کام کاج کی وجہ سے اسکول چھوڑ دیتے ہیں، ان کو واپس لانے کے لیے بھی مالی ترغیب دی جائے۔

ماہر تعلیم بیلا رضا جمیل کا خیال ہے کہ حکومت کو تعلیمی اداروں میں دوسری اور تیسری شفٹیں شروع کرنا چاہیئں، ''برازیل کے ایک وفد نے ہمیں بتایا کہ ان کی حکومت نے تین تین شفٹیں شروع کی ہوئی ہیں، یہاں تک کہ نیپال، جو ہماری طرح ایک غریب ملک ہے، وہاں پر بھی تعلیم کی انرولمنٹ 97 فیصد ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ کم ہو رہی ہے۔‘‘