1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردوں کی دوہری جرمن شہریت کی منسوخی: قانونی ترمیم منظور

4 اپریل 2019

وفاقی جرمن کابینہ نے مروجہ ملکی قانون میں اس ترمیم کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت آئندہ دوہری شہریت کے حامل دہشت گردوں کی جرمن شہریت منسوخ کی جا سکے گی۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے یہ ترمیم ماضی سے نافذالعمل ہو گی۔

https://p.dw.com/p/3GDUv
تصویر: Imago/Westend61

اس ترمیم کی منظوری کے بعد ایسے شدت پسند جہادی یا دہشت گرد، جو کسی غیر ملکی مسلح ملیشیا یا عسکری گروہ کے لیے دہشت گردی کے مرتکب پائے جائیں گے، دوہری شہریت کے حامل ہونے کی صورت میں جرمن شہریت سے محروم کر دیے جائیں گے۔

برلن میں چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں بدھ تین اپریل کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’کوئی بھی ایسا شخص جو مسلح سرگرمیوں میں شرکت کے لیے کسی غیر ملکی ملیشیا کی حمایت میں بیرون ملک جاتا ہے، وہ اپنے اس عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ اس نے جرمنی کی ریاستی اور معاشرتی اقدار سے اپنا منہ موڑ لیا ہے اور خود کو کسی دہشت گرد گروہ میں شمولیت کی صورت میں کسی بیرونی طاقت کا وفادار بنا لیا ہے۔ ایسے کسی بھی جرمن شہری کے لیے دوہری شہریت کے حامل فرد کے طور پر جرمنی کے شہری حقوق کا حامل رہنا آئندہ ممکن نہیں ہو گا۔‘‘

جرمن حکومت کے اس بیان کے مطابق اس قانونی ترمیم کا اطلاق صرف بالغ اور ایسے جرمن شہریوں پر ہو گا، جو جرمنی کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے شہری بھی ہوں گے۔ نابالغ جہادیوں پر، چاہے وہ دوہری شہریت کے حامل بھی ہوں، اس قانون کا اطلاق نہں ہو گا۔

Syrien, Baghouz: Männer, die verdächtigt werden, IS Kämpfer zu sein zu sein werden von der SDF durchsucht
شام میں سینکڑوں کی تعداد میں داعش کے یورپی جہادی شامی کرد فورسز کی حراست میں ہیںتصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

جہادی اور کرد باغی

شام میں امریکی حمایت یافتہ کرد باغیوں اور عراق میں بغداد حکومت کے زیر قبضہ ایسے جرمن شہریوں کی تعداد درجنوں میں بنتی ہے، جو ماضی میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی طرف سے جہادیوں کے طور پر لڑنے کے لیے جرمنی سے مشرق وسطیٰ کے ان ممالک میں گئے تھے۔

یہ جرمن شہری، دوہری شہریت کے حامل نہ ہونے کی صورت میں جرمن شہریت سے محروم نہیں کیے جائیں گے۔ شام اور عراق میں زیر حراست ان جہادیوں میں کئی یورپی ممالک کے سینکڑوں شہری شامل ہیں اور امریکا کے علاوہ امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز کی طرف سے بھی یورپی ممالک پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اپنے شہریوں کے طور پر ان دہشت گردوں کو واپس لیں۔

دریں اثناء متعدد یورپی ممالک میں اس حوالے سے بھی ایک بھرپور سیاسی بحث شروع ہو چکی ہے کہ یہ ممالک اپنے شام اور عراق سے لوٹنے والے جہادی شہریوں کا آئندہ کیا کریں گے۔ اس بارے میں واضح خدشات کی وجہ یہ ہے کہ یہی شدت پسند مستقبل میں خود ان یورپی ممالک میں بھی سلامتی کے بڑے خطرات کا سبب  بن سکتے ہیں۔

داعش کے حامی ایک ہزار جرمن جہادی

وفاقی جرمن وزارت داخلہ کے اندازوں کے مطابق ایسے جرمن مسلم یا نومسلم شہریوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے، جو 2013ء سے لے کر ماضی قریب تک داعش کے جہادیوں کے طور پر لڑنے کے لیے شام اور عراق گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے وہاں مارے گئے تھے جبکہ تقریباﹰ ایک تہائی اب تک واپس لوٹ چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کے خلاف جرمن عدالتوں میں قانونی کارروائی جاری ہے جبکہ بہت سے دیگر اپنی سماجی بحالی کے لیے مختلف سرکاری پروگراموں میں شرکت کر رہے ہیں۔

جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس قانون کا اطلاق ماضی سے ہو گا اور یہ ان تمام جہادیوں کو ان کی جرمن شہریت سے محروم کر دے گا، جن کے پاس جرمنی کے علاوہ کسی دوسرے ملک کی شہریت بھی ہو گی۔

اس قانونی ترمیم سے ایسے کرد عسکریت پسند بھی متاثر ہوں گے، جو گزشتہ تین عشروں سے ترکی میں ممنوعہ تنظیم کردستان ورکرز پارٹی یا ’پی کے کے‘ کے جنگجوؤں کے طور پر ترک ریاست کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

چیز ونٹر / م م / ش ح

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں