دہشت گردی کے خلاف چین کا افغانستان کے ساتھ تعاون
8 مارچ 2014افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے حوالے سے چین کا یہ بیان ایک ٹرین اسٹیشن پر انتہاپسندوں کے حملے کے بعد سامنے آیا ہےجس کے لیے اس کے علاقے سنکیانگ کے شدت پسندوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ چین کے اس مغربی علاقے کی سرحد افغانستان کے ساتھ ملتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شورش زدہ سنکیانگ میں سلامتی کے حوالے سے بیجنگ حکومت کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں موجود مسلمان انتہاپسندوں کو ہمسایہ ملکوں کے شدت پسندوں سے مدد ملتی ہے۔
سنکیانگ میں چین کے ایغور نسل کے مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں علیحدگی پسندوں نے گزشتہ ہفتے جنوب مغربی شہر کنمنگ میں ایک ٹرین اسٹیشن پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 29 افراد ہلاک اور تقریباﹰ 140 زخمی ہوئے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس میں ایک بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ بیجنگ حکومت افغانستان میں سیاسی مصالحت کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہاں تعمیرِ نو کے کاموں کے لیے بھی مدد فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا: ’’تمام دہشت گردوں سے مستقل مزاجی سے لڑائی کے لیے ہم افغانستان اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔‘‘
وانگ نے بتایا کہ چین اگست میں افغانستان کے موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد وہاں پائیدار امن کی حوصلہ افزائی ہے۔
چین کے وزیر خارجہ نے گزشتہ ماہ افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ اس جنگ زدہ ملک کے بارے میں چین کا یہ مؤقف ایسے وقت سامنے آ رہا ہے، جب وہاں امریکی قیادت میں تعینات غیرملکی افواج کے لڑاکا دستے رواں برس کے آخر تک اپنے ملکوں کو لوٹ رہے ہیں۔
بیجنگ میں موجود سفارت کاروں کے مطابق دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ ساتھ چین نے حالیہ کچھ مہینوں کے دوران افغانستان میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ ان کے مطابق بیجنگ حکام کو خدشہ ہے کہ نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان میں عدم استحکام کی صورتِ حال کے اثرات سنکیانگ میں بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
سنکیانگ کے متعدد ایغور مسلمان چین کو ثقافتی اور مذہبی پابندیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ برس کے دوران وہاں کشیدگی کے باعث ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔