روس اور طالبان کے مفادات مشترک ہیں، روسی صدارتی مندوب
23 دسمبر 2015روسی دارالحکومت ماسکو سے بدھ تئیس دسمبر کی شام موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ضمیر کابولوف نے روسی نیوز ایجنسی انٹرفیکس کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ اگر ’مقصدیت کو دیکھا جائے تو افغانستان میں طالبان کے مفادات ہمارے مفادات سے مماثل‘ ہیں۔
روسی صدر کے مندوب برائے افغانستان نے کہا، ’’میں ماضی میں طالبان کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لیے روس کی طرف سے رابطوں کے ذرائع پر بھی بات کر چکا ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ وہ قدر ہے، جو روس اور افغان طالبان میں مشترک ہے۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور طالبان دونوں کو ہی دہشت گرد تنظیمیں قرار دے رکھا ہے اور افغانستان میں یہ دونوں عسکریت پسند گروہ اب اس لیے ایک دوسرے کے خلاف اعلان جنگ کر چکے ہیں کہ وہ دونوں ہی زیادہ سے زیادہ افغان ریاستی علاقے کو اپنے زیر اثر لانا چاہتے ہیں۔
روس نے، جس نے ستمبر کے مہینے میں شام میں داعش اور دیگر انتہا پسند گروپوں کے خلاف فضائی بمباری کی صورت میں دمشق حکومت کی حمایت میں اپنے مشن کا آغاز کیا تھا، کئی بار کہہ چکا ہے کہ اسے افغانستان میں حالیہ مہینوں کے دوران سلامتی کی مسلسل خراب تر ہوتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان سے اسلام پسند عسکریت پسندوں کی آپس میں اس خونریز لڑائی کے اثرات ہمسایہ ملک تاجکستان تک بھی پہنچ چکے ہیں، جو روس کا ایک اہم اتحادی ملک ہے اور جہاں وقفے وقفے سے شدت پسندانہ خونریزی کے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔
روس کی پیش رو ریاست، سابق سوویت یونین کے فوجی دستوں نے افغانستان میں 1980 کی دہائی میں پورا ایک عشرہ ’مجاہدین‘ کہلانے والے ان افغان عسکریت پسندوں کے خلاف لڑتے ہوئے گزارا تھا، جنہیں امریکا کی مالی اور عسکری مدد حاصل تھی۔
یہ افغان ’مجاہدین‘ ایک ایسے بنیاد پرست اسلامی اتحاد کا حصہ تھے، جو افغانستان میں کمیونزم کے خلاف لڑتا رہا تھا، اور جس کا مقصد ملک میں ایک اسلامی حکومت کا قیام تھا۔