روس میں دہشت گردی: مالی معاونت میں داؤد ابراہیم اور لشکر طیبہ پر شبہ
7 جولائی 2011معتبر بھارتی اخبار دی ٹائمز آف انڈیا نے روس کے سرکاری اخبار Rossiiskaya Gazeta کی جس رپورٹ کو شائع کیا ہے اس میں واضح کیا گیا ہے کہ ماسکو حکومت کا شک اب یقین میں تبدیل ہونے لگا ہے کہ روس کے اندر مسلمان انتہاپسندوں کی سرگرمیوں کے لیے مالی معاونت میں بھارتی دہشت گرد اور زیر زمین سرگرمیوں کے ڈان داؤد ابراہیم کےعلاوہ لشکر طیبہ اور لشکر جھنگوی بھی شامل ہیں۔ اسی فہرست میں حرکت الجہاد الاسلامی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
مسلمان روسی انتہا پسندوں کی مالی معاونت میں شامل مختلف تنظیموں کی ایک فہرست روسی حکومت کے سرکاری اخبار روشیکیا گزیٹا میں شائع کی گئی ہے۔ روسی اخبار میں اس مناسبت سے رپورٹ بدھ کو شائع ہوئی تھی۔ روسی اخبار کے مطابق اس فہرست کے شائع کرنے کا مقصد بینکوں اور عام لوگوں کو مطلع کرنا ہے کہ وہ ایسے اداروں کے ساتھ یا ان کے افراد کے ساتھ لین دین کرتے ہوئے چوکس رہیں۔ اخبار کے مطابق رقوم کی غیر قانونی ترسیل کے کاروبار میں شامل افراد عموماً نارمل راستوں اور رابطوں کو استعمال کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔
روس میں دہشت گردی کے فروغ کے سلسلے میں مالی امداد کے تناظر میں پہلی جامع فہرست روس کی وزارت خارجہ نے مرتب کی تھی اور اس میں ساری دنیا سے چھ سو مختلف کمپنیوں اور اداروں کو شامل کیا گیا تھا۔ روسی وزارت خارجہ نے اس مناسبت سے اقوام متحدہ اور دوسرے اعداد و شمار پر انحصار کیا تھا۔
اسی حوالے سے دوسری فہرست روس کی وزارت انصاف نے اب مرتب کی ہے۔ اس میں کل اڑتالیس مختلف تنظیموں اور کمپنیوں کے علاوہ پندرہ سو افراد کے نام شامل ہیں۔ ان افراد کے نام مختلف روسی عدالتوں میں جاری مقدمات میں ریاست کے منافی سرگرمیوں کی پاداش میں شامل کیے جا چکے ہیں۔ اسی فہرست میں لشکر طیبہ کا نام بھی شامل ہے اور یہ روس میں عدالتی حکم کے تحت کالعدم قرار دی جا چکی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ روسی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والوں کی لسٹ کا اجراء کیا گیا ہے۔ اخبار روشیکیا گزیٹا کے مطابق دہشت گردی کے فروغ میں منی لانڈرنگ میں شامل مشتبہ افراد اور تنظیموں کے نام خفیہ بھی رکھے گئے ہیں۔
روشیکیا گزیٹا نامی روزنامہ کمیونسٹ سوویت یونین کے زوال کے بعد معرض وجود میں آنے والی حکومت نے اپنے سرکاری مقاصد کی تشہیر کے لیے گیارہ ستمبر سن 1990 میں قائم کیا تھا۔ سرکاری اخبار ہونے کے باوجود اس کے قارئین کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ