ماسکو دھماکہ، عالمی برادری کی جانب سے مذمت
25 جنوری 2011روسی صدر دیمتری میدویدیف کے نام ایک پیغام میں صدر آصف علی زرداری نے کہا، ’’ معصوم لوگوں کے خلاف اس طرح کے دہشت گردانہ حملوں کا کوئی بھی جواز نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی عوام روس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔ پاکستان کو خود بھی دہشت گردانہ حملوں کا سامنا ہے اور یقین کرتے ہیں کہ بین الاقوامی مدد ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘‘
ماسکو کے مصروف ترین ہوائی اڈے دومو دیدوو پر پیر کو یہ حملہ ایک مشتبہ خودکش بمبار نے کیا۔ تاہم ابھی تک کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ خبررساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ شمالی قفقاذ کے علاقے میں لڑنے والے شدت پسند اس نوعیت کے حملوں میں ملوث رہے ہیں اور وہ پہلے ہی روسی شہروں اور اس کے اقتصادی اہداف کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
روسی صدر دیمتری میدویدیف نے دہشت گردی کے اس واقعے پر سخت ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذمہ داروں کا سراغ لگایا جائے گا اور انہیں سزا دی جائے گی۔
بین الاقوامی برادری نے بھی اس حملے پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی اور فرانس نے ماسکو کے اس حملے کو ظالمانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اسے ’اشتعال انگیز اور دہشت گردی کا فعل‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے ماسکو حکام کو مدد کی پیش کش بھی کی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’دُکھ کی اس گھڑی میں ہم روس کے ساتھ ہیں۔‘
ہلیری کلنٹن نے دورہ میکسیکو کے موقع پر کہا، ’ہمیں اس واقعے پر افسوس ہے اور ہم روس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، جو دہشت گردی جیسے عالمی خطرے پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
ہلیری کلنٹن نے کہا کہ اس خطرے کا سامنا سب کو ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن کا کہنا ہے کہ اس حملے نے انہیں چونکا دیا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس حملے کے ردِ عمل میں کہا، ’ہمیں دہشت گردوں کو جیتنے کا موقع کبھی نہیں دینا چاہیے۔‘
کیمرون نے روسی صدر دیمتری میدویدیف کے ساتھ فون پر افسوس کا اظہار کیا اور لندن حکومت کی جانب سے معاونت کی پیش کش کی۔ آسٹریلیا نے بھی ماسکو کے اس دھماکے کی مذمت کی ہے۔
دوسری جانب مصروف ہوائی اڈے پر اس نوعیت کے حملے سے عالمی سطح پر نئے سکیورٹی خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 2014ء میں روس ونٹر اولمپکس کی میزبانی کرنے والا ہے جبکہ 2018ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کا حق بھی اسے حاصل ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: افسر اعوان