روس میں سنوڈن کی سیاسی پناہ کا ایک سال
31 جولائی 2014واشنگٹن سے ڈوئچے ویلے کے نمائندے گیرو شلیس لکھتے ہیں کہ یوکرائن کے بحران کی وجہ سے امریکی صدر باراک اوباما کا دائرہء عمل محدود ہو کر رہ گیا ہے اور امریکا میں بھی سنوڈن کے کیس میں دلچسپی کم ہوئی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو نہ تو روس امریکی انٹیلیجنس ایجنسی این ایس اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کو امریکا کے حوالے کرے گا اور نہ ہی وہ خود رضاکارانہ طور پر واپس اپنے وطن جائیں گے۔
اکتیس جولائی کو روس میں سنوڈن کی سیاسی پناہ کی مدت ختم ہو رہی ہے اور اُنہوں نے اس مدت میں توسیع کی درخواست دے رکھی ہے۔ کسی کو بھی اس بارے میں شک و شبہ نہیں ہے کہ روسی حکومت اس درخواست کا مثبت جواب دے گی، امریکی صدر اوباما کو بھی نہیں، جو گزشتہ ایک سال سے ماسکو حکومت سے سنوڈن کو امریکا کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سینٹر فار امیریکن پراگریس سے وابستہ کَین گیُوڈ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے سنوڈن کی امریکا واپسی کے امکانات کے بارے میں کہا:’’مَیں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا لیکن میرے خیال میں اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ سنوڈن واپس امریکا آ جائے گا۔‘‘
گیُوڈ نے بہرحال اس امر کی تصدیق کی کہ رواں سال کے اوائل میں اوباما انتظامیہ اور سنوڈن کے نمائندوں کے درمیان سنجیدہ بات چیت ہوئی تھی اور امریکا میں اس موضوع پر کھل کر گفتگو ہو رہی ہے کہ آیا سنوڈن کو اُس کی خواہش پر معافی دے دی جائے۔ گیُوڈ کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سنوڈن کے ملک سے فرار کے ایک سال بعد بھی امریکی حکومت کو پوری طرح سے نہیں معلوم کہ وہ اپنے ساتھ کتنا کچھ مواد لے کر گیا ہے۔
کانگریس کے رکن چارلی ڈَینٹ کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے۔ اُن کے خیال میں سنوڈن کی امریکا واپسی خارج از امکان ہے:’’میرے خیال میں سنوڈن رضاکارانہ طور پر امریکا واپس نہیں آئے گا۔ مجھے اس بارے میں بھی شک ہے کہ امریکی حکومت اُس کے ساتھ واقعی سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات بھی کرے گی۔‘‘
چارلی ڈَینٹ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ اوباما کو سنوڈن کی حوالگی کا معاملہ ایک بار پھر زیادہ پُر زور انداز میں اٹھانا چاہیے کیونکہ سنوڈن نے اپنے انکشافات سے امریکا کو ذلیل اور شرمسار کیا ہے اور دنیا بھر میں امریکی فوجیوں کو خطرے سے دوچار کیا ہے۔
سنوڈن کی وطن واپسی کا ایک ہی راستہ ہے کہ اوباما اُنہیں معافی دے دیں تاہم آج کل کے حالات میں یہ بات بھی ناقابلِ تصور لگتی ہے۔ یہ البتہ ضرور ممکن ہے کہ اوباما اپنے دورِ صدارت کے بالکل آخر میں جا کر ایسا کر دیں تاکہ اُن کے بعد آنے والے صدر کو اس حوالے سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔