جرمنی امریکا: جاسوسی ضرور کریں لیکن ...
8 جولائی 2014مشائیل کنیگے لکھتے ہیں:’’اس بارے میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ خفیہ اداروں کا کام ہی غیر ملکی اہداف کی جاسوسی کرنا اور اُن پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انٹیلیجنس اداروں کی سرگرمیاں اکثر یا تقریباً ہمیشہ ہی مشکوک حالات میں اور مشکوک کرداروں کے ساتھ عمل میں آتی ہیں۔ اگر کوئی شخص محض جاسوسی کیے جانے پر سیخ پا ہوتا ہے تو یا تو وہ سادہ ہے یا پھر اُسے کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔
تاہم ان تمام باتوں کے باوجود جاسوسی کا تازہ اسکینڈل، بشرطیکہ اس کے بارے میں منظر عام پر آنے والی تمام باتیں مبنی بر حقیقت ہوں، کئی لحاظ سے مختلف ہے اور اس کی اسی مختلف نوعیت پر جرمن سیاستدانوں اور شہریوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔
غور اس لیے نہیں کرنا چاہیے کہ امریکی انٹیلیجنس اداروں نے اپنی ساتھی جرمن خفیہ سروس میں ایک ڈبل ایجنٹ کیوں رکھا ہوا تھا۔ ظاہر ہے یہ ادارے زیادہ سے زیادہ درست معلومات کے حصول کے لیے دیگر خفیہ اداروں میں اس طرح کے ایجنٹوں سے کام لیا ہی کرتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور خاص طور پر ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے کیے گئے انکشافات کے بعد تو یہ بات ہرگز باعث حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اور تو اور دوست ممالک بھی ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے ہیں۔
کیوں؟
یہ سمجھنے کے لیے کہ جاسوسی کا یہ تازہ اسکینڈل بحر اوقیانوس کے دونوں کناروں پر واقع ممالک کے درمیان دوستی اور شراکت کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے، یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ اسکینڈل کن حالات میں رونما ہوا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے۔ یہ اسکینڈل انکشافات کے اُس طویل سلسلے کی محض ایک کڑی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے جرمن چانسلر اور سرکردہ سیاستدانوں سے لے کر عام شہریوں تک کروڑوں جرمنوں پر نظر رکھنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ بی این ڈی میں سرگرم یہ مبینہ ڈبل ایجنٹ کہیں ماضی بعید میں نہیں بلکہ اسی سال کچھ عرصہ پہلے تک بھی سرگرمی کے ساتھ جاسوسی کرتا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں ایک طرف واشنگٹن اور برلن حکومتیں این ایس اے کے اسکینڈل کے بعد اوقیانوس کے آر پار تعلقات کو پھر سے معمول پر لانے کے لیے کوششیں کر رہی تھیں، وہاں دوسری طرف امریکی انٹیلیجنس اداروں نے اپنا ایک جاسوس جرمن خفیہ سروس بی این ڈی کے اندر پہنچا دیا تھا۔ ان انکشافات نے کچھ عرصہ قبل شروع کی جانے والی اُس جرمن امریکی کوشش کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، جس کا مقصد لوگوں کی نجی معلومات اور سلامتی کے حوالے سے کسی مشترکہ بنیاد پر متفق ہونا تھا۔
گہری ہوتی ہوئی خلیج
اس اسکینڈل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ امریکییوں کے ہاں جرمنوں کی صورتِ حال کی تفہیم کا مکمل فُقدان ہے۔ یہ چیز اوقیانوس کے آر پار واقع ممالک کے درمیان خلیج کو اور زیادہ گہرا کر دے گی۔ یہ ڈھٹائی کی حد ہے کہ بی این ڈی کے اندر امریکی جاسوسی سرگرمیوں کو اس طرح سے جاری رکھا جائے گویا گزشتہ سال کے دوران کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جہاں ایک طرف مزدور ایک انتہائی شکستہ ہو چکے بین الاوقیانوسی گھر کی مرمت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہوں، وہاں دوسری طرف عمارات کو منہدم کرنے والی کرین چلا دی جائے۔
اس اسکینڈل میں برلن حکومت کے لیے ایک واضح پیغام موجود ہے اور وہ یہ کہ تمام تر سفارتی کوششوں کے باوجود واشنگٹن حکومت اپنے غیر ملکی جاسوسی آپریشنز میں کسی بھی طرح کی بنیادی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہے، نہ جرمنی کے لیے اور نہ ہی دیگر ممالک کے لیے۔ درحقیقت یہ بات اُسی وقت واضح ہو گئی تھی جب جرمن حکومت کی ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرنے کے معاہدے کی کوششیں ابتدا ہی میں ناکامی سے دوچار ہو گئی تھیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ برلن حکومت اس پیغام کو اچھی طرح سے سمجھ لے اور اسی کے مطابق اپنا آئندہ لائحہ عمل مرتب کرے۔ اور وہ لائحہ عمل یہ ہو سکتا ہے کہ جرمنی امریکی خفیہ اداروں کی معلومات پر انحصار کرنا ختم کر دے اور جاسوسی کے خلاف اپنی دفاعی کوششوں کا دائرہ اُن ممالک تک بھی پھیلا دے، جو اب تک دوست ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔‘‘