روسی صدر پوٹن چین کے دورے پر
20 مئی 2014منگل بیس مئی کو چینی شہر شنگھائی میں پوٹن اور شی نے اپنی ملاقات میں عالمی سلامتی اور دو طرفہ تعاون کے ایک مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے۔ بعد ازاں پوٹن نے کہا کہ روس اور چین نے دفاعی شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کہ دونوں ملکوں کا باہمی تعاون عالمی سلامتی میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔
چینی نیوز ایجنسی سنہوا کے مطابق اس ملاقات میں شی نے پوٹن کو ’میرے دیرینہ دوست‘ کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ ایک کثیرالقطبی دنیا کی تشکیل کے لیے اسٹیریٹیجک پارٹنرشپ کا قیام بہت ضروری ہے۔ پوٹن نے اس موقع پر زور دے کہا کہ دونوں ملک اپنی باہمی تجارت کے حجم کو، جو گزشتہ سال نوّے ارب ڈالر تھا، 2015ء میں بڑھا کر ایک سو ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔ روسی نیوز ایجنسی ایتار تاس کے مطابق اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ دونوں ملک مل کر ایک بڑا طیارہ اور ایک ہیلی کاپٹر بنائیں گے۔
منگل ہی کے روز پوٹن اور شی بحیرہء مشرقی چین میں اُن مشترکہ جنگی مشقوں کا بھی افتتاح کر رہے ہیں، جن میں روس اور چین کے بحری جنگی جہاز شرکت کر رہے ہیں اور جو سات روز تک جاری رہیں گی۔ یہ مشقیں اُسی علاقے میں ہو رہی ہیں، جہاں ایک طویل عرصے سے چین اور جاپان کے مابین چند غیر آباد جزائر کی ملکیت پر تنازعہ چلا آ رہا ہے۔
پوٹن کے اس دورے کے دوران مجموعی طور پر تینتالیس سمجھوتوں پر دستخط کیے جا رہے ہیں گے۔ آیا ان معاہدوں میں چین کو روسی گیس کی فراہمی کا وہ نیا معاہدہ بھی شامل ہے، جس پر دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ کئی برسوں سے مذاکرات چلے آ رہے ہیں، یہ بات ابھی واضح نہیں ہے۔ پیر کو پوٹن نے عندیہ دیا تھا کہ اس نئے معاہدے پر اتفاقِ رائے کی منزل قریب آ گئی ہے۔ تاہم آج منگل کو دونوں صدور کی ملاقات کے بعد پوٹن کے ترجمان نے کہا کہ ابھی گیس کی قیمت کے حوالے سے کوئی حتمی اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔
منگل کو ہی پوٹن کی ملاقات اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے بھی ہو رہی ہے۔ پوٹن کی طرح بان کی مون بھی ایک ایشیائی سکیورٹی کانفرنس میں حصہ لینے کے لیے شنگھائی میں ہیں۔ CICA یعنی کانفرنس آن انٹرایکشن اینڈ کانفیڈینس بلڈنگ مَیّرز کا مقصد ایشیا میں امن، سلامتی اور استحکام کو فروغ دیتے ہوئے باہمی تعاون کو بڑھانا ہے۔ CICA کے چوبیس رکن ممالک میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں جبکہ جو نو ممالک مبصر کی حیثیت سے اس میں شریک ہیں، اُن میں ریاست ہائے متحدہ امریکا بھی شامل ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا چین کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر عمل میں آ رہا ہے، جب مغربی دنیا نے یوکرائن کے بحران کی وجہ سے اُن پر اپنا دباؤ بڑھاتے ہوئے اُنہیں تنہا کر دیا ہے۔ پوٹن اس دورے کے ذریعے مغربی دنیا کو یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ اُنہوں نے دنیا کے دیگر خطّوں میں ساتھیوں کی تلاش تیز تر کر دی ہے۔