روسی عوام جمہوریت اور آزادی کے لیے کیوں نہیں نکلتے؟ تبصرہ
11 اکتوبر 2022ایران کی سڑکوں پر ہزاروں افراد احتجاج کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف روس پرسکون ہے۔ ڈی ڈبلیو کے میودراگ زورِچ کا کہنا ہے کہ پولیس کی بربریت کا خوف اس کی وجہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ دونوں ممالک میں یکساں طور سرایت کیا ہوا ہے۔
جارحیت کی اس مجرمانہ جنگ میں لاکھوں روسی خود کو بطور توپ کا چارہ بنائے جانے کی اجازت کیوں دے رہے ہیں؟ وہ اپنی قسمت ایک جنگجو رہنما کے ہاتھ میں کیوں دے چکے ہیں؟
روسی فوجی باغی کیوں نہیں ہو رہے؟
روس سے باہر زیادہ تر لوگ ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ روسی عوام کسی بھی چیز کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں۔
مبصرین اس کی وجہ اس مفروضے کو قرار دے رہے ہیں کہ دراصل روسی عوام قومی کردار کے بارے میں دقیانوسی خیالات کے حق میں ہیں۔
کیا پوٹن کو واقعی ’خدائی منڈینٹ‘ ملا ہے؟
یوکرینی علاقوں کاغیر قانونی الحاق، روس کوعالمی مذمت کا سامنا
تنقید کی جاتی ہے کہ حکومت میں کوئی بھی ہو لیکن روسی ہمیشہ اطاعت گزار ہی ریتے ہیں۔ یا وہ آزادی سے ہی خوفزدہ ہیں، جیسا کہ مشہور روسی ادیب فیودور دوستوفسکی نے بھی ایک بار کہا تھا۔
یہ سچ ہے کہ روس میں بغاوت اس وقت خطرناک بات ہو سکتی ہے۔ روس میں کوئی بھی شخص جو آزادی کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اسے قید اور تشدد کا خطرہ ہوتا ہے۔
لیکن اگر یہی حقیقت ہے تو ایران میں ایسا کیوں نہیں؟ کیونکہ ایرانی مظاہرین کو بھی یہی خطرہ لاحق ہے، وہاں خاموشی کیوں نہیں؟
ایک ماہ ہوا کہ ایران میں ہزاروں افراد مذہبی رہنماؤں کی ظالمانہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ درجنوں پہلے ہی شخصی آزادی اور جمہورت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دے چکے ہیں۔
ایران میں ریاستی سطح پر ایک منظم کریک ڈاون جاری ہے لیکن ایرانیوں کی بڑی تعداد سکیورٹی فورسز کے تشدد کے باوجود مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حالانکہ تہران اور دیگر ایرانی شہروں میں کریک ڈاؤن کرنے والی ایرانی پولیس ماسکو کی خصوصی فورسز کے مقابلے میں کم سفاک نہیں۔
پوٹن کے تحفظ کے بغیر لوکانشینکو گر جائیں گے
دنیا جرات مند ایرانی مظاہرین کو قدر کی نگاہ سے ویسے ہی دیکھ رہی ہے جیسا دو سال قبل بیلاروس میں سراپا احتجاج مظاہرین کو دیکھ رہی تھی۔
تب بیلاروس کے عوام نے صدر لوکاشینکو کی انتخابی دھاندلی کے خلاف بے مثال احتجاج کیا تھا۔
اسی طرح یوکرین میں بھی جمہوریت پسند عوام نے جابر حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ لیکن بیلاروس میں لوکاشینکو نے روس کی مدد سے مظاہروں کو کچل دیا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ جب روسی صدر پوٹن نے لوکا شینکو کا ساتھ چھوڑ دیا تو ملکی عوام انہیں گھسیٹتے ہوئے انصاف کے کٹہرے میں لے آئیں گے۔
روسی فوج، اصل سے کہیں زیادہ بڑی سمجھی جانے والی طاقت
فوج میں جبری بھرتی سے خوفزدہ روسی شہری فرار ہونے لگے
یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ روسی عوام جمہوریت کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ یہ حوالہ اکثر سروے رپورٹوں کے نتائج سے اخذ کیا جاتا کہ تقریبا تین روسیوں میں سے ایک یقین رکھتا ہے کہ مغربی جمہوریت روس کے لیے موزوں نہیں ہے۔
جو لوگ اس طرح سوچتے بھی ہیں یا تو وہ پرانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر انہوں نے مغربی معاشروں میں زیادہ وقت نہیں گزارا۔
دوسری طرف نوجوان نسل پیرس یا لندن میں اپنے ہم خیالوں کی طرح کھلے ذہن کی حامل ہے۔ نوجوان روسی آزادی، حقیقی جمہوریت، خوشحالی اور سفر کرنے کے مواقع چاہتے ہیں۔
یہ دعویٰ کرنا بھی غلط ہے، جو روسی آرتھوڈوکس چرچ کے رہنماؤں نے کیا ہے، کہ جمہوریت اخلاقیات کو مبینہ طور پرکمزور کرتی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ جمہوری ادارے ہی سب کو انصاف فراہم کرتے ہیں، چاہے ان اداروں میں فائزعہدیدارں کے ساتھ سیاستدانوں کے ذاتی تعلقات کتنے ہی اچھے یا برے ہوں۔
تاہم آج کے روس میں کریملن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ جب مظاہرین کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا تو فیصلہ کیا ہونا چاہیے۔ روس کے جج ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں، جہاں انصاف کوئی معنی نہیں رکھتا۔ تاہم مستحکم جمہوریتوں میں بدعنوانی اور اقربا پروری کی گنجائش نہیں ہوتی۔
نوے کی دہائی کا صدمہ
سن انیس سو نوے کی دہائی کا صدمہ ایک اہم وجہ ہے، جس کی بنیاد پر بزرگ روسی جمہوریت کے بارے میں شک کا شکار ہیں۔ سوویت یونین کا ٹوٹ جانا، ان کے لیے ایک صدمہ ہے۔
اہم بات لیکن یہ ہے کہ نوے کی دہائی سے قبل تو وہاں جمہوریت تھی ہی نہیں، اس لیے سوویت یونین کے دیرینہ مسائل کو جمہوریت سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
سوویت اشرافیہ میں شامل سابق حکومت کے عہدیدار اور خفیہ سروس کے ارکان عوام کی رقوم سے امیر ہوئے۔ اس کے بعد وہ اپنے پیسوں کے پہاڑوں سے ملک کی سیاست کو کنٹرول کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔
نوے کی دہائی میں ہی یوکرینی اور جورجیائی عوام بھی اسی مخمصے میں گرفتار رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا، جب کیف میں بھی اشرافیہ کا زبردست اثر و رسوخ تھا لیکن یوکرینی عوام نے جمہورہت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے حالات بدلنے میں کامیاب رہے۔
روس عالمی امن تباہ کر رہا ہے، امریکہ
روسی منحرفین کو پناہ مل سکتی ہے، جرمنی کا اشارہ
آہستہ آہستہ یوکرینی عوام کا معیار زندگی بہتر ہوا۔ پھر یہ ملک ایک ماڈل کی شکل اختیار کر گیا، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ روس بھی ان منازل کو طے کرتا ہوا عوام کی خوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے۔
تاہم یہ بات روسی صدر پوٹن کے لیے خطرے کی ایک گھنٹی بن گئی اور نتیجہ موجودہ یوکرینی بحران کی شکل میں نکلا۔ یوکرینی عوام پر مسلط کردہ اس جنگ کو اس حوالے سے پرکھا جا سکتا ہے۔
ان باتوں سے بظاہر ایسا ہی واضح ہوتا ہے کہ مشرق میں بھی جمہوریت اور آزادی ممکن ہے، جس کے لیے عوام کو آگے بڑھ کر اپنے حقوق طلب کرنا ہوں گے۔ یوکرینی عوام اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں۔
یوکرینی باشندے اپنے ملک کے لیے لڑتے رہیں گے۔ وہ آمرانہ ریاست میں نہیں رہنا چاہتے۔ وہ اپنی عظیم قربانیوں سے متحد ہیں اور روس کے خلاف ان کی دفاعی جنگ نسلوں تک ان کی تشکیل کرے گی۔
اگر روس کے شہری بھی آزادی اور خوشحالی میں مہذب زندگی چاہتے ہیں تو انہیں بھی اس کے لیے لڑنا پڑے گا، جیسا کہ دوسری قوموں کے لوگوں نے کیا ہے۔
تبصرہ، میودراگ زورِچ (ع ب / ر ب)
یہ تبصرہ پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع ہوا