1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا مسلمانوں کا میانمار سے کوئی تعلق نہیں، جنرل لینگ

عابد حسین
17 ستمبر 2017

میانمار کی فوج کے سربراہ نے روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کا نسلی گروپ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری جانب بنگلہ دیشی حکومت نے روہنگیا مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2k7h8
Myanmar Min Aung Hlaing
تصویر: Imago/Xinhua/U. Aung

میانمار کی فوج کے سربراہ جنرل مِن آنگ لینگ نے اپنے فیس بُک پیج پر روہنگیا تنازعے کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان میں جنرل لینگ نے کہا ہے کہ روہنگیا تنازعے پر اُن کے ملک کے سبھی حلقوں اور طبقوں میں اتحاد کی ضرورت ہے اور اسی باعث بحرانی صورت حال سے نمٹا جا سکے گا۔

راکھین میں صورتحال کو قابو میں لایا جائے، عالمی سلامتی کونسل

روہنگیا عسکریت پسندوں کا دہشت گرد تنظیموں سے روابط سے انکار

میانمار: کیا راکھین کا مسلم علاقہ جہادیوں کا نیا گڑھ بن جائے گا؟

روہنگیا بحران: ’نسل کشی کی کتابی مثال‘ ہے، اقوام متحدہ

فوجی جنرل نے اپنے بیان میں کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کا اُن کے ملک میانمار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جنرل نے اپنی تحریر میں یہ بھی واضح کیا کہ روہنگیا، میانمار میں شناخت کے متلاشی ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی اِس ملک کا نسلی گروپ نہیں رہے۔ جنرل لینگ نے اس بیان میں روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی بھی قرار دیا۔

Myanmar Gespräche mit Aung San Suu Kyi
میانمار کی خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی (دائیں) اور جنرل من آنگ لینگ (بائیں) ملکی پارلیمنٹ سے باہر آتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/Z. Yunfei

مبصرین کے مطابق اس بیان میں میانمار کی فوج کے سربراہ نے کم و بیش وہی موقف بیان کیا ہے جو اس ملک کی اکثریتی بدھ مت ماننے والی آبادی اور بدھ راہب رکھتے ہیں۔ یہ حلقے روہنگیا مسلمانوں کو ’بنگالی‘ قرار دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں روہنگیا مسلمانوں کی مسلسل بے گھری کی کیفیت نے عالمی تنازعے کی صورت اختیار کر لی ہے۔

جنرل من آنگ لینگ تشدد کا سلسلہ روک پائیں گے ؟

روہنگیا مہاجرین کے خلاف میانمار کے فوجی آپریشن کی مذمت عالمی سطح پر کی جا رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوبل انعام یافتہ سیاستدان آنگ سان سوچی ایک اہم ملکی لیڈر ضرور ہیں لیکن اُن کا زور اپنے ملک کی طاقتور فوج کے سربراہ پر کم ہی چلتا ہے۔ وہ ابھی تک واشگاف انداز میں اس بحران پر کوئی بات نہیں کر پائی ہیں اور اس باعث انہیں عالمی تنقید کا سامنا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پیدا تنازعے کی پرتشدد صورتحال پر امریکا کو گہری تشویش ہے۔ اس تشویش کو حکومتی حلقوں تک پہنچانے کے لیے ایک امریکی ایلچی کو روانہ کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے میانمار کی فوج پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ایک منظم طریقے سے روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

گزشتہ ماہ سے اب تک چار لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان فرار ہو کر بنگلہ دیش میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسی دوران بنگلہ دیشی حکومت نے روہنگیا مہاجرین کو مختلف بیماریوں کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی ویکسین لگانے کا عمل شروع کر دیا ہے اور ان کی نقل و حرکت کو کیمپوں تک محدود کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔