روہنیگا کو اب مون سون سے خطرہ
28 مئی 2018محمد حئی اور ان کا خاندان گزشتہ برس ستمبر میں بنگلہ دیش آیا تھا۔ انہوں نے پلاسٹک اور بانسوں کی مدد سے ریت اور کچی زمین پر اپنا چھپر یا عارضی ٹھکانہ بنایا۔ اب جبکہ مون سون کی بارشوں میں شدت کا امکان ہے تو وہ اور ان کا خاندان اپنی سلامتی کے حوالے سے شدید تحفظات کا شکار ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے محمد حئی کا کہنا تھا، ’’گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پہلے ہی شدید بارشیں ہو چکی ہیں۔ بعض مرتبہ تو رات بھر بارش ہوتی رہی۔ میں اور میری بیوی خوفزدہ رہے اور رات بھر سو نہ سکے۔ ہمیں خوف تھا کہ کہیں ہمارے بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘‘
اگست 2017ء سے اب تک سات لاکھ کے قریب روہنگیا میانمار کی ریاست راکھین سے اپنی جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ راکھین میں انہیں میانمار کی فوج کے تشدد کا سامنا تھا جسے اقوام متحدہ کا ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق روہنگیا کی ’’نسلی تطہیر‘‘ قرار دے چکا ہے۔ اس دوران روہنگیا کے درجنوں دیہات کو جلا دیا گیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ ہزاروں روہنگیا ہلاک ہوئے۔
یہ روہنگیا بنگلہ دیش کے جنوب ضلع کوکس بازار میں پہنچے جہاں پہلے ہی دو لاکھ روہنگیا مہاجرین پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس وقت نو لاکھ روہنگیا ان مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ان میں سے قریب ڈیڑھ لاکھ اسی جگہ پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں جو غیر محفوظ ہے۔ ان کے چھپر یا عارضی رہائشی ٹھکانے پہاڑیوں یا وادیوں میں ریت یا کچی زمین پر بنائے گئے ہیں۔
لینڈ سلائیڈنگ کے بھی کافی زیادہ خطرات موجود ہیں اور سمندری طوفانوں کے بھی جو اس خطے کے لیے انہونی بات نہیں ہیں۔ ایسے میں ان مہاجرین کی سلامتی یقینی بنانا وقت کے خلاف دوڑ کی طرح ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے کوارڈینیٹر پیٹر گیسٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’مون سون کے حوالے سے ہمیں کافی زیادہ تحفظات ہیں۔ ہم لوگوں کو زیادہ خطرناک علاقوں سے نسبتاﹰ محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جس قدر جلد ہو سکے ہم یہ کام مکمل کر لیں۔‘‘
بنگلہ دیش حکومت نے حالیہ عرصے کے دوران 500 ایکڑ زمین ایسے مہاجرین کی منتقلی کے لیے مختص کی ہے مگر اس زمین کی ناہمواری کے سبب اس کا محض کچھ حصہ ہی اس مقصد کے لیے قابل استعمال ہے۔
ا ب ا / ا ا (Ate Hoekstra)