ریمنڈ ڈیوس کے خلاف سماعت ایک بار پھر ملتوی
3 مارچ 2011اس مقدمے کے 36 سالہ ملزم ریمنڈ ڈیوس نے جنوری کے آخر میں پنجاب کے دارالحکومت میں دو پاکستانی شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ملزم اپنے اس اقدام کا اعتراف بھی کر چکا ہے۔ تاہم اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ اقدام ذاتی دفاع میں کیا۔
لاہور میں امریکی قونصل خانے کی طرف سے ڈیوس کو اس قونصلیٹ کا ایک کارکن قرار دیا جاتا ہے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو ایک سفارت کار ہونے کی وجہ سے اپنے خلاف عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اس لیے واشنگٹن کا مطالبہ ہے کہ ڈیوس کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ لیکن پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے لاہور کی عدالت کو ابھی تک باقاعدہ طور پر اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا کہ آیا ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں ایک امریکی سفارت کار کی حیثیت سے مقیم ہے۔
امریکی حکام کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں شروع میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا تھا کہ وہ امریکی خفیہ ادارے کا ایک کنٹریکٹ کارکن ہے۔ اب لیکن اس کی اس حیثیت کی مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق کئی امریکی اہلکار تصدیق کر چکے ہیں۔
امریکہ نے ریمنڈ ڈیوس کے دفاع کے لیے ایک سابقہ پاکستانی جج اور موجودہ وکیل زاہد حسین بخاری کو ہی وکیل صفائی بنائے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاہور سے آمدہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ جمعرات کو عدالت نے اس کیس کی سماعت اس لیے اگلے منگل تک کے لیے ملتوی کر دی کہ وکیل صفائی زاہد بخاری نے اس مقدمے میں ضروری دستاویزات کی تیاری کے لیے عدالت سے وقت مانگا تھا۔
ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے دونوں پاکستانی شہریوں کے لواحقین کی نمائندگی کرنے والے وکیل اسد منظور بٹ نے بھی تصدیق کر دی کہ عدالت نے زاہد بخاری کو کچھ وقت دینے کے لئے تین مارچ کے روز ہونے والی سماعت ملتوی کر دی ہے۔ یہ سماعت سخت حفاظتی انتظامات کے تحت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کے اندر کی گئی۔
اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے پہلے ہی روز عدالت کو ڈیوس کی طرف سے یہ درخواست ملی تھی کہ اسے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے، لہٰذا اسے رہا کر کے واپس امریکہ جانے کی اجازت دی جائے۔اس مقدمے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی کشیدگی پیدا ہو چکی ہے بلکہ دونوں ملکوں کے مابین خفیہ اداروں کی سطح پر دو طرفہ تعاون بھی متاثر ہوا ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امتیاز احمد