رینجرز بغیر اختیارات بھی سرگرم، وسیم اختر کیوں گرفتار ہوئے؟
21 جولائی 2016اس طرح سندھ حکومت کی تمام تر مخالفت اور اندرون سندھ میں چھاپوں کو غیر قانونی قرار دے کر خصوصی اختیارات نہ دینے اور سندھ میں رینجرز کے قیام کی مدت میں توسیع نہ کیے جانے کے باوجود رینجرز مصروفِ عمل ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان تازہ تنازعہ لاڑکانہ میں اسد کھرل کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری اور وزیر داخلہ کے بھائی طارق سیال کے زبردستی رہائی کے بعد پیدا ہوا ہے۔
سندھ حکومت کا موقف ہے کہ ستمبر دو ہزار تیرہ میں آپریشن کے آغاز پر رینجرز کو صرف کراچی کی حد تک آرٹیکل ایک سو سینتالیس کے تحت دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے خاتمے کے لیے اختیارات دیے تھے جبکہ صوبے کے بقیہ علاقوں میں رینجرز کو ڈسٹرکٹ پولیس کی مدد کے لیے رکھا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر قانون مرتضی وہاب نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے سندھ حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ رینجرز کو کراچی میں قیام امن کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے دیے گئے خصوصی اختیارات کی مدت پندرہ جون کو ختم ہو چکی ہے مگر وزیر داخلہ نے خاموشی سے ڈیڑھ مہینہ گزار دیا مگر سندھ حکومت قانون پر عملدرآمد چاہتی ہے تو اس پر بلاوجہ تنقید کی جا رہی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت جلد اس حوالے سے فیصلہ کر لے گی۔
سندھ حکومت کو رینجرز کی کراچی سے باہر کاروائیوں پر اعتراض ہے مگر رینجرز کا موقف ہے کہ جرائم پیشہ افراد کراچی میں جرم کرنے کے بعد اندرون سندھ میں جاکر چھپ جاتے ہیں لہٰذا وہاں بھی کارروائی ضروری ہے۔ رینجرز ترجمان میجر قمبر رضا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ رینجرز پانچ ستمبر دو ہزار تیرہ کو خصوصی اختیارات ملنے کے بعد سے اندرون سندھ کے مختلف علاقوں میں کئی ٹارگیٹڈ کارروائیاں کر چکے ہیں، جن میں مجموعی طورپر پانچ سو تینتیس ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
گرفتار ملزمان میں سے چار سو اٹھہتر کو پولیس جبکہ پچپن کو دیگر اداروں کے حوالے کیا گیا ہے۔ ان گرفتار افراد میں کالعدم تنظیموں اور علیحدگی پسند تنظیموں کے کارندے بھی شامل تھے اور ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کے دہشت گرد بھی جبکہ اسمگلر اور منشیات فروش بھی ان ملزمان میں شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس معاملے میں ہر طرف سے سیاست ہو رہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلیک ملینگ میں مصروف ہیں تاہم اس تمام صورت حال میں نقصان صرف اور صرف کراچی کی عوام کا ہو رہا ہے۔ سینیئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں کہ سندھ حکومت ہر معاملے میں رینجرز کی طرف دیکھتے ہیں اور جب ان کے وزراء اور سیاسی لوگوں پر ہاتھ پڑتا ہے تو یہ رینجرز کے قیام اور اختیارات میں توسیع کو بارگینگ ٹول کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ سندھ حکومت تو مدد کے بغیر کراچی کے برساتی نالوں کی صفائی کے بھی قابل نہیں ہے اور وزیر بلدیات نے نالوں کی صفائی کے لیے رینجرز کی مدد سے متعلق جو بیان دیا ہے، وہ خود ناکامی کا اعتراف ہے۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اب کراچی سمیت سندھ میں رینجرز کی سکیورٹی صرف ججز کے پاس رہ گئی ہے کیونکہ غیر ملکی مشنز، غیر ملکیوں، وزراء اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ سکیورٹی پر مامور رینجرز اہلکاروں کو واپسی کا حکم مل چکا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے موجودہ صورت حال سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو ملاقات کر کے آگاہ کر دیا ہے اور دونوں جلد دبئی میں آصف علی زرداری سے ملاقات کرنے والے ہیں اور توقع یہی ہے کہ ماضی کی طرح سندھ حکومت ایک بار پھر معاملے کو ہائپ دینے کے بعد ہتھیار ڈال دے گی کیونکہ نہ تو سندھ حکومت رینجرز کے بغیر صوبہ چلانے کے قابل ہے اور نہ سندھ پولیس اکیلے صوبے میں امن و امان قائم رکھ سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایم کیو ایم کو پہلے ہی رینجرز کی کارروائیوں پر تحفظات ہیں اور نامزد میئر وسیم اختر کی گرفتاری کے بعد انہیں تفتیش کے لیے ایم کیو ایم مخالفت کے حوالے سے شہرت رکھنے والے پولیس افسر راؤ انوار کے حوالے کیا جانا ایم کیو ایم کے نئے احتجاج کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
وسیم اختر کو پولیس نے اشتعال انگیز تقاریر کی سہولت کاری کے الزام میں درج دو مقدمات میں تفیش کے لیے جسمانی ریمانڈ پر لیا ہے۔
ایس ایس پی راؤ انوار نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دونوں مقدمات رواں برس کی ابتدا میں درج کیے گئے تھے مگر وسیم اختر بلانے کے باوجود تفتیش کے لیے نہیں آئے لہٰذا ان کو جیل سے حراست میں لینا پڑا۔ ان مقدمات میں فاروق ستار سمیت دیگر کئی رہنما بھی مطلوب ہیں۔
سینیئر صحافی امین حسین کہتے ہیں کہ وسیم اختر سمیت ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی اکثریت ایسے تئیس مقدمات میں ضمانت پر ہے لیکن پہلے ایک انتہائی کمزور مقدمے میں وسیم اختر کی گرفتاری اور پھر دیگر مقدمات میں گرفتاری منصوبہ بندی کے تحت لگتی ہے۔