زرداری کی حکومت بچاؤ مہم
29 دسمبر 2010پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اور پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ شام کراچی پہنچ کر مرکزی حکومت کو اتحادیوں کی جانب سے جس دباؤ کا سامنا ہے اس کی شدت کم کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ اس مناسبت سے ہنگامی بات چیت میں صدر کے ساتھ مشاورت میں ان کے قریبی ساتھی اور وزیر داخلہ رحمان ملک اور سندھ صوبے کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ شریک ہیں۔
پیپلز پارٹی کو ملک کے اندر مختلف پالیسیوں کے تناظر میں غیر مقبولیت کا سامنا ہے۔ اس میں خاص طور پر اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ اہم خیال کیا جارہا ہے۔ حکومت افراط زر کو کنٹرول کرنے میں بظاہر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اسی باعث غریب آدمی پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ مہنگائی انتہائی زیادہ ہونے سے غربت کی شرح حد سے زیادہ بلند ہو چکی ہے۔
کراچی پہنچنے کے بعد زرداری نے اپنی رہائش گاہ پر ملاقاتوں اور مشاورت کے سلسلے کو شروع کردیا ہے۔ پیر کی شام کو متحدہ قومی موومنٹ نے مرکزی کابینہ میں شریک وزراء کے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ ایم کیو ایم کے ترجمان واسع جلیل نے بتایا ہے کہ پارٹی کی قیادت نےسمندر پار پاکستانیوں کے وفاقی وزیر فاروق ستار کا استعفیٰ صدر کو ارسال کردیا ہے اور بندرگاہوں اور جہاز رانی کے وفاقی وزیر بابر غوری کے استعفے کو بھی جلد ہی داخل دفتر کیا جائے گا۔
دوسری جانب رحمان ملک نے صدر سے مشورے کے بعد ایم کیو ایم کی لیڈرشپ سے رابطوں میں تیزی پیدا کردی ہے تا کہ پیدا شدہ اختلافات کو ختم کیا جا سکے۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ صدر متحدہ کے وزراء کے استعفے کسی طور منظور نہیں کریں گے کیونکہ ایسا کرنے سے حکومت لڑکھڑا سکتی ہے۔
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ متحدہ اگر مرکزی حکومت سے علٰیحدہ ہوتی ہے توزرداری کی پیپلز پارٹی اپنی قلیل اکثریت سے محروم ہو سکتی ہے۔ اس باعث حکومت کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ یہ صورت حکومت کے زوال اور اسمبلی کے تحلیل ہونے تک پہنچ سکتی ہے۔ قومی اسمبلی میں متحدہ کے اراکین کے تعداد پچیس ہے۔ اس سے قبل جے یو آئی (ف) کے رہنما فضل الرحمان نے وزیر اعظم کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ