’زمین کے جلتے پھیپھڑے‘ دو ممالک کے صدور کے مابین تلخی کی وجہ
23 اگست 2019برازیل میں ریو ڈی جنیرو سے جمعہ تیئیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق برازیل کے صدر بولسونارو پر ان کے ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ایمیزون کے علاقے میں جنگلاتی رقبے کے تیز رفتار خاتمے کے خلاف کافی اور مؤثر اقدامات نہیں کر رہے۔ دوسری طرف ایمیزون کے جنگلات میں لگی آگ وہاں مسلسل تباہی کا باعث بن رہی ہے اور اس پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے گہری تشوش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں صدر بولسونارو کی حکومت کی طرف سے اب شکایت یہ کی گئی ہے کہ اس عالمی تشویش کے پیچھے بھی انہی سیاسی ناقدین کا ہاتھ ہے، جو دراصل برازیلین حکومت کو بدنام کرتے ہوئے اس کی ساکھ خراب کرنا چاہتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر اس موضوع پر بحث اتنی پھیل گئی ہے کہ اسی بارے میں کل جمرات بائیس اگست کو صدر بولسونارو اور فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں کے مابین ٹوئٹر پر پیغامات کی صورت میں ایک دوسرے کی رائے کی تلخ مخالف بھی دیکھنے میں آئی۔
فرانسیسی صدر ماکروں نے نہ صرف ایمیزون کے علاقے میں اس جنگلاتی آگ کو ایک بین الاقوامی بحران قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ جی سیون کے سربراہان کو آئندہ ویک اینڈ پر فرانس ہی میں ہونے والی اپنی سربراہی کانفرنس میں اس موضوع پر ہنگامی مشاورت کرنا چاہیے۔
بولسونارو اور ماکروں کے مابین نوک جھونک
صدر ماکروں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''ہمارا گھر جل رہا ہے۔ سچ مچ۔ ایمیزون کے وہ بارانی جنگلات، جو زمین پر سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی پیداوار کا پانچواں حصہ فراہم کرتے ہیں، جل رہے ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں برازیل کے صدر بولسونارو نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''مجھے افسوس ہے کہ صدر ماکروں اپنے اس موقف کے ساتھ اپنے لیے ذاتی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، حالانکہ یہ معاملہ برازیل کا اندرونی معاملہ ہے اور ایمیزون کے جنگلات والی دیگر ریاستوں کا۔‘‘
ساتھ ہی برازیل کے صدر نے یہ بھی لکھا کہ فرانسیسی صدر نے اس بارے میں اپنی رائے کے اظہار کے لیے جو حیران کن اور جوشیلا انداز اختیار کیا ہے، اس سے بھی اس مسئلے کے حل میں تو کوئی مدد نہیں ملے گی۔
یورپی امدادی فنڈز کی معطلی
اہم بات یہ بھی ہے کہ برازیلین حکومت کے ایمیزون کے جنگلات اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر قطعی عدم اطمینان کا اظہار صرف فرانس نے ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس بارے میں پریشانی کا اظہار کئی دیگر ممالک کی طرف سے بھی کیا گیا تھا۔
جرمنی اور ڈنمارک کی طرف سے تو یہ بھی کہہ دیا گیا کہ برازیل بظاہر اس بارے میں کسی پختہ عزم سے عاری دکھائی دیتا ہے کہ ایمیزون کے جنگلات کے خاتمے کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔
ساتھ ہی ان ممالک نے برازیل کے لیے 60 ملین ڈالر سے زائد کی وہ رقوم بھی روک دی تھیں، جن کی مدد سے ایمیزون کے جنگلات کے دیرپا اور پائیدار استعمال سے متعلق کئی ماحولیاتی منصوبے مکمل کیے جانا تھے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ کا موقف
ایمیزون کے جنگلات میں اسی وسیع تر آتش زدگی کے بارے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''اب جب کہ دنیا کو عالمگیر سطح پر ایک ماحولیاتی بحران کا سامنا ہے، ہم اس بات کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے کہ حیاتیاتی تنوع اور آکسیجن کی فراہمی کے ایک انتہائی اہم ذریعے کو نقصان پہنچے۔ ایمیزون کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جانا چاہیے۔‘‘
اس موضورع پر بحث اس وجہ سے بھی شدید ہو گئی تھی کہ برازیل میں وفاقی حکومت کے ماہرین نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ اس ملک میں ایمیزون کے مختلف حصوں میں لگنے والی جنگلاتی آگ کے واقعات میں اس سال اب تک پچھلے سال کے پہلے تقریباﹰ سات ماہ کے مقابلے میں 84 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
صدر بولسونارو کی منطق
ایمیزون کے جنگلات میں لگی اور مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی اسی آگ کے پس منظر میں برازیل کے صدر کے بیانات بھی غیر متنازعہ نہیں ہیں۔ ان جنگلات کو 'دنیا کے پھیپھڑے‘ کہا جاتا ہے۔ اس آگ کا دھواں خلا تک سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن عملاﹰ ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ آتش زدگی کے ایسے واقعات کی وجہ کون بنتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ برازیل میں اس وقت ایک ایسے سیاستدان ملکی صدر ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ برازیل میں ان بارانی جنگلات کی حفاظت کا عمل دراصل اس ملک کی اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
م م / ع ت / اے پی