سابق جرمن وزیر نے یونانی مہاجر کیمپ میں خیمہ لگا لیا
12 مارچ 2016اسّی سالہ نوربرٹ بلُومن جرمنی کے سابق وفاقی وزیر محنت ہیں۔ یونان اور مقدونیہ کے مابین سرحد بند ہونے کے بعد ایڈومینی مہاجر کیمپ میں رہنے پر مجبور تارکین وطن کی حالت زار کی خبریں میڈیا میں آنے کے انہوں نے خود وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔
درجنوں پاکستانی تارکین وطن کی یونان سے ترکی ملک بدری
رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر قائم اس کیمپ میں گنجائش سے زیادہ پناہ گزین رہ رہے ہیں۔ بلُومن آج رات ان کے ہمراہ ایک خیمے میں گزارنے کا منصوبہ رکھتے ہیں تاکہ وہ ان تارکین وطن کے حالات کا بذات خود مشاہدہ کر سکیں۔
بلقان کی ریاستوں کی جانب سے سرحدیں بند کرنے کے فیصلوں کے بعد یونان میں ہزاروں افراد پھنس چکے ہیں۔ اندازوں کے مطابق اس وقت جرمنی اور مغربی یورپی ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند چالیس ہزار سے زائد تارکین وطن یونان میں محصور ہیں۔
اندازوں کے مطابق پناہ گزینوں میں سے بارہ ہزار سے زائد تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر قائم ایڈومینی مہاجر کیمپ میں موجود ہیں۔ یہ کیمپ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے میں یورپ کی ناکامی کی علامت بن چکا ہے۔
نوربرٹ بلُومن 1982 سے لے کر 1998 تک جرمنی کے وفاقی وزیر محنت رہ چکے ہیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے بلُومن کا کہنا تھا، ’’یورپی ثقافت ایسی بربریت کی اجازت نہیں دیتی۔‘‘ انہوں نے یونانی کیمپوں میں رہنے والے تارکین وطن کی قابل رحم حالت پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’انسانیت پر حملہ‘ قرار دیا۔
جرمنی کی وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (سی ڈی یو) سے تعلق رکھنے والے سابق جرمن وزیر جب ہفتے کے روز ایڈومینی میں قائم تارکین وطن کی خیمہ بستی پہنچے تو تارکین وطن نے ان کا استقبال ’شکریہ جرمنی‘ کے نعروں سے کیا۔
بلُومن نے آسٹریا اور دیگر ممالک کی جانب سے انفرادی طور پر سرحدیں بند کرنے کے فیصلے کوبھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا، ’’وہ اپنی سرحدیں بند کر کے آرام سے بیٹھے ہیں اور یونان کو کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے تئیں تارکین وطن سے نبرد آزما ہو، یہ کس قسم کا حل ہے؟‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین دوست پالیسیوں کی وجہ سے جرمنی میں گزشتہ برس کے دوران گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دی تھیں۔ میرکل پر عوامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے دباؤ کے باوجود ہزاروں تارکین وطن اب بھی جرمنی پہنچ رہے ہیں۔