سابقہ مشرقی جرمنی برطانوی نشریاتی ادارے کا دشمن کیسے بنا؟
26 مئی 2020آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کے بغیر سابقہ مشرقی جرمنی کا جمہوری نظام ایک تضاد کے کم نہیں تھا۔ صاحب اقتدار اور طاقتور اشرافیہ سے متعلق تنقید نہ صرف ممنوع بلکہ خطرناک بھی تھی۔ سابقہ مشرقی جرمنی کے حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے ناقدین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا تھا۔ اس کے باوجود بہت سارے سابقہ مشرقی جرمنی کے رہائشیوں نے بعض اوقات برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی مدد سے یہ خطرہ مول لیا۔
سابقہ مشرقی جرمنی کے حصے ’جرمن ایسٹ زون‘ کے لیے چار اپریل سن 1949 سے بی بی سی ریڈیو جرمن زبان میں ایک پروگرام شروع کر چکا تھا۔ اس کا ہدف سابقہ سوویت یونین کے مقبوضہ علاقہ میں رہنے والے سامعین تھے۔ یہ مقبوضہ علاقہ چھ ماہ بعد جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (جی ڈی آر) بن گیا۔ جی ڈی آر کے رہائشیوں کے لیے شروع ہی سے سیاسی اور معاشی حالات پر عدم اطمینان زندگی کی ایک حقیقت تھی۔ اور اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے بی بی سی کا پروگرام (Letters without Signature) یعنی ’بغیر دستخط کے خطوط‘ سب سے مناسب پلیٹ فارم مہیا کر رہا تھا۔
چالیس ہزار خطوط
برلن کے کمیونیکیشن میوزیم میں اکتوبر تک جاری ایک نمائش کا موضوع بھی بی بی سی کا یہی پروگرام ہے۔ اس نمائش کو ریڈیو پروگرام کا ہی نام دیا گیا ہے۔ اس ہفتہ وار شو کی میزبانی کے فرائض آسٹن ہیریسن نے تقریباﹰ بیس برس تک سرانجام دیے۔ سامعین کی جانب سے حیرت انگیز نوعیت کا ردعمل نظر آنے لگا۔ سابقہ مغربی برلن میں ’محفوظ ڈاک‘ کے ذریعے بی بی سی لندن کے دفتر میں تقریباﹰ 40,000 خطوط پہنچے تھے۔ بی بی سی ریڈیو پر یہ شو سن 1974 تک نشر کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: سابقہ مشرقی جرمنی کی خفیہ فائلوں میں لاکھوں کی دلچسپی
دیوار برلن کے پیچھے ’ایک قیدی‘
سن 1961 میں دیوار برلن کے قیام کے فوری بعد سابقہ مشرقی برلن کی ایک رہائشی نے اپنے ایک خط میں مستقبل کے بارے میں دل برداشتہ کیفیت کو بیان کیا۔ اس خط میں سابقہ سوویت رہنما نکیتا خروشیف کی مذمت کرتے ہوئے خاردار تاروں اور کنکریٹ سے تعمیر کی گئی دیوار برلن کو سابقہ مشرقی جرمنی کے رہائشیوں کے لیے ایک پھندا قرار دیا گیا تھا۔ اس خط پر ’ایک قیدی‘ کے نام سے دستخط موجود تھے۔ اگر اس خاتون نے خط میں اپنا اصل نام درج کیا ہوتا تو شاید وہ سلاخوں کے پیچھے ہوتی۔
اب یہ تمام خطوط مصنفہ اور مترجم سوزان شیڈلش کی مدد سے جرمن زبان میں دستیاب ہیں۔ شیڈلش نے بی بی سی آرکائیو میں موجود ان خطوط کے کئی سالوں تک مطالعے کے بعد ان پر مبنی سن 2017 میں ایک کتاب شائع کی۔ انہوں نے اپنی کتاب کو ’بغیر دستخط کے خطوط: بی بی سی کے ایک پروگرام نے کس طرح سابقہ مشرقی جرمنی کو چیلنج کیا‘ کا نام دیا تھا۔ اس کتاب نے برلن میں جاری ایک نئی نمائش کو متاثر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:اگر دیوار برلن نہ گرتی تو ۔۔۔ انگیلا میرکل کا خواب کیا تھا؟
مصنفہ شیڈلش کے مطابق سابقہ مشرقی جرمنی کے ہر علاقے اور تمام شعبہ جات سے منسلک افراد کی جانب سے یہ خطوط بھیجے گئے، ان میں بچے، کسان، مزدور، اساتذہ اور دانشور حلقے بھی شامل تھے۔ شیڈلش نے بتایا کہ متعدد خطوط میں ایک احساس یقیناﹰ قدرے مشترک تھا۔ ’دیوار برلن کی تعمیر کے بعد اور اس سے قبل مغرب نے ان کو ترک کر دیا۔‘
شیڈلش کے مطابق بی بی سی کا یہ پروگرام محض ایک پروپیگنڈا سے کہیں زیادہ تھا، کیونکہ اس میں مغربی طاقتوں کی پالیسیوں پر بھی تنقید کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر برطانوی سیاست اور امریکا کی ویت نام جنگ پر بھرپور تنقید کی جاتی تھی۔
آزادی کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے
مصنفہ اور مترجم سوزان شیڈلش اس ریڈیو پروگرام کی صدا دور جدید میں سوشل میڈیا پر سرگرم آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کی مہم میں دیکھتی ہیں۔ شیڈلش کے بقول، ’’انٹرنیٹ پر تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر ایسی حکومتوں کے بارے میں، جو کم آزاد ہیں اور آپ سیاسی مزاحمت کو منظم کرنے کے لیے نیٹ ورک تیار کر سکتے ہیں۔‘‘
مزید پڑھیے: اٹھاون سال قبل دیوار برلن کی تعمیر کے وقت جرمنی کیسا تھا؟
برلن کی نمائش میں ماضی کو حال کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ جبر کے حالیہ واقعات میں ترکی میں قید جرمن ترک صحافی ڈینیز یوچیل، سعودی عرب میں بلاگر رائف بداوی کی حراست اور اس پر تشدد کے ساتھ ساتھ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی پر بی بی سی کے لیے اپنی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں ایک بلاگ لکھنے پر طالبان کے حملے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ شیڈلش کے بقول، ’’آزادی کا مطالبہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے، ماضی میں ریڈیو پر اور اب آن لائن کیا جاتا ہے۔‘‘
ع آ / ا ا (مارسیل فئرسٹناؤ)