1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سریبرینیتسا میں مسلمانوں کا قتل عام: ڈچ حکومت کے خلاف مقدمہ

مقبول ملک9 اپریل 2014

1995ء میں بوسنیا کی جنگ کے دوران سریبرینیتسا میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کی ذمے داری ہالینڈ کے سر ڈالتے ہوئے مقتولین کے لواحقین کی طرف سے دی ہیگ حکومت کے خلاف دائر کردہ مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BeTy
ہزاروں مقتولین کو بہت سی اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا تھا، فائل فوٹوتصویر: Odd Andersen/AFP/Getty Images

اس قتل عام کے دوران بوسنیا کے ہزاروں مسلمان مارے گئے تھے، جن میں بہت بڑی اکثریت مردوں اور نوجوان لڑکوں کی تھی۔ مقدمے کی پیر سات اپریل سے شروع ہونے والے سماعت کے دوران مقتولین کے لواحقین کے نمائندہ وکلاء نے دی ہیگ میں عدالت کو بتایا کہ یہ قتل عام اس لیے ہوا کہ تب ڈچ حکومت نے بوسنیا کے اس علاقے میں متعین اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل اپنے فوجیوں کی سلامتی کو ان مسلمانوں کی حفاظت پر ترجیح دی تھی جن کے تحفظ کے لیے یہ دستے وہاں موجود تھے۔

Srebrenica Gerichtsprozess in Den Haag 07.04.2014 Klägerinnen
مقدمہ دائر کرنے والی سریبرینیتسا کی بہت سے خواتین عدالت میں موجود تھیںتصویر: picture-alliance/dpa

ڈچ حکومت اس الزام کو رد کرتی ہے کیونکہ اس کے بقول ہالینڈ کے یہ فوجی بوسنیا کی جنگ کے دوران اقوام متحدہ کے امن فوج میں شامل تھے اور ان دستوں کی کمان دی ہیگ حکومت کے پاس نہیں تھی۔ سریبرینیتسا کا قتل عام یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سب سے بڑا قتل عام ہے اور اس کی ذمہ داری کے تعین کے لیے ہالینڈ کی ایک عدالت میں جو نئی قانونی جنگ شروع ہوئی ہے، وہ غالباﹰ کئی مہینے جاری رہے گی۔

جولائی 1995ء میں سریبرینیتسا کو جنگ کے شکار بوسنیا کا سول آبادی کے لیے محفوظ علاقہ قرار دیا جا چکا تھا۔ لیکن پھر بھی وہاں بوسنیائی سرب فوجوں نے آٹھ ہزار کے قریب مسلمان مردوں اور لڑکوں کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ ان مقتولین کے چھ ہزار کے قریب رشتہ دار اپنے لیے مالی ازالہ طلب کر رہے ہیں کیونکہ ہالینڈ کے فوجی دستے اس قتل عام کو رکوانے میں ناکام رہے تھے۔

Srebrenica 18. Jahrestag Potocari 11.07.2013
سریبرینیتسا کے ہزاروں ’مقتولین کا قبرستان‘تصویر: Klix.ba

دی ہیگ کی ایک ضلعی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے وقت مقتولین کے کئی رشہ دار بھی موجود تھے۔ ان میں شامل مُنیرہ سُوباسِچ نامی درخواست گزار بیوہ نے تین ججوں پر مشتمل عدالت کو بتایا کہ یہ مقدمہ ڈچ عوام کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اعتراف کریں کہ سریبرینیتسا میں مسلمانوں کی نسل کشی کی ذمہ داری ڈچ سیاستدانوں اور فوجیوں پر عائد ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق مالی ازالے کی ادائیگی کے مطالبے کا یہ مقدمہ اقوام متحدہ کے دوسرے امن مشنوں کے لیے باقاعدہ قانونی مثال بن سکتا ہے۔ اس کے برعکس وکلائے صفائی کے مطابق دی ہیگ حکومت نے اس قتل عام کو رکوانے کے لیے وہ سب کچھ کیا تھا جو وہ کر سکتی تھی لیکن وہ ملکی فوجی دستوں کو کوئی حکم اس لیے نہیں دے سکتی تھی کہ وہ اقوام متحدہ کے زیر کمان تھے۔

اس مقدمے میں عدالت اپنا فیصلہ اسی سال سنا دے گی۔ اگر وکلائے صفائی کے دلائل کو تسلیم کر لیا گیا، تو پھر درخواست دہندگان کے پاس قانونی چارہ جوئی کے لیے مزید کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔ ہالینڈ کی ایک عدالت سریبرینیتسا کے مقتولین کے انہی لواحقین کی طرف سے اقوام متحدہ کے خلاف دائر کردہ ایک مقدمہ پہلے ہی یہ کہہ کر خارج کر چکی ہے کہ اس عالمی ادارے کو حاصل قانونی مامونیت کے باعث اس کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں