سریبرینیتسا کا قتل عام: مزید افراد کی تدفین
11 جولائی 2010بوسنیائی سرب فوج نے جولائی 1995ء میں سریبرینیتسا میں آٹھ ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ قتل عام کے بعد لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا، جن کے باقیات کی DNA ٹیسٹ کے ذریعے جانچ کے بعد ساڑھے چھ ہزار افراد کی شناخت ہو چکی ہے۔
اس وقت قتل کئے گئے 775 افراد کی شناخت ایک اجتماعی قبر سے اب کی گئی ہے۔ اتوار کو سریبرینیتسا میں تقریب کے موقع پر ان افراد کے باقیات تدفین کے لئے رکھے گئے۔ وہاں چار ہزار افراد پہلے ہی دفن ہیں۔
تقریب میں شریک افراد میں سے ایک نے کہا کہ 15سال قبل قتل عام کا نشانہ بننے والے ان کے عزیزوں پر کیا بیتی، وہ صرف اس تکلیف کو محسوس کرنا چاہتے ہیں، اور وہ بس اتنا ہی تو کر سکتے ہیں۔
اس تقریب میں سربیا کے صدر بورس ٹاڈچ بھی شریک ہوئے، جسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ رواں برس مارچ میں سربیا کے پارلیمنٹ نے اس قتل عام کے لئے معذرت پر مبنی ایک قرار داد منظور کی تھی، جس میں کہا گیا کہ بلغراد اس المناک کارروائی کو روکنے کے لئے مزید کوششیں کر سکتا تھا۔
ان تقریبات کے موقع پر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سریبرینیتسا کی نسل کشی کبھی بھلائی نہیں جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک جرم تھا، جس پر یورپ شرمندہ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ایسا پھر نہ ہو، اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
اس حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما نے ایک بیان میں اس قتل عام کو ایک ایسا المیہ قرار دیا ہے، جس کا تصور ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زمانہ جنگ کے بوسنیائی سرب فوجی کمانڈر راڈکو مالڈچ اور قتل عام میں ملوث دیگر افراد کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہئے۔
سریبرینیتسا کے قتل عام کو دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی سرزمین پر ڈھایا گیا ایک بڑا ظلم سمجھا جاتا ہے، جو 1990ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ میں بدامنی کے دَور کی ایک تاریک داستان ہے۔ اس قتل عام کو اقوام متحدہ کی عدالت برائے جنگی جرائم اور بین الاقوامی عدالت برائے انصاف نے نسل کشی قرار دیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عدنان اسحاق