1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سستا گوشت مت خریدیں‘

26 جون 2020

جرمنی کی گوشت کی صنعت کے مسائل اور مشکلات کورونا وائرس کی وبا کے دوران ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ قصائی خانوں کے انتظامات اور حالت زار پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3eOBA
Landwirtschaftsministerin Julia Klöckner  CDU
تصویر: Imago Images/photothek/F. Gaertner

جرمن وزیر خوراک و زراعت یولیا کِلؤکنر نے آج جمعہ چھبیس جون کو ملکی گوشت کی صنعت سے وابستہ نمایاں افراد اور اہلکاروں کے ساتھ ایک ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کا بنیادی ایجنڈہ جرمنی میں لائیو اسٹاک کا مستقبل اور ضروریات ہیں۔

یہ میٹنگ اس لیے بھی اہم خیال کی گئی کہ حالیہ ہفتوں کے دوران کئی جرمن قصائی خانوں میں کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے پر ہر خاص و عام میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے۔ اس حوالے سے قصائی خانوں کے انتظامات اور ملازمین جن حالات میں کام کرتے ہیں، ان پر بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔

Deutschland Arbeiter in Schlachthof
تصویر: Getty Images/S. Gallup

اس میٹنگ میں یولیا کِلؤکنر کے ساتھ میٹ انڈسٹری سے جڑے معاملات مثلاً  ورکرز کے بنیادی مسائل اور ذبح کیے جانے والے جانوروں کی صحت اور حقوق پر فوکس کرنے کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بہبود کے ٹیکس کو بھی زیر بحث لایا گیا۔

مزید پڑھیے: ’میں نے رات کے وقت ساتھیوں کی سسکیاں سُنیں‘

جرمن وزیر خوراک و زراعت کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک میں سب سے سستا گوشت جرمنی میں دستیاب ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملک میں گوشت کوئی لگژری آئٹم نہیں ہے اور وہ امید کرتی ہیں کہ لوگوں کو سستے گوشت کو خریدنے سے اجتناب کرنا بھی ضروری ہے۔ جرمن وزیر نے ملکی عوام کو کم گوشت کھانے کی عادت اپنانے کی تلقین بھی کی۔

Werkverträge Fleisch
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

جرمن فیڈریشن برائے ٹریڈ یونین نے برلن حکومت کے ساتھ گوشت کی صنعت  سے وابستہ افراد کی ملاقات کا جہاں خیر مقدم کیا وہاں تحفظات کا بھی اظہار کیا ہے۔ یونین نے اس ملاقات کو کوئی بڑی پیش رفت قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا کہ آخری وقت پر ہونے والی یہ بات چیت کسی بڑی تبدیلی کا آئینہ دار نہیں۔ ٹریڈ یونین سے منسلک آنیا پیل نے جرمن اخبار نوئے اوسنابروک سائٹُنگ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بھی ایسی ملاقاتوں کے بارے میں بہت سنا گیا لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: کیا بار بی کیو کی عادت آپ کی جان بھی لے سکتی ہے؟

یہ امر اہم ہے کہ حالیہ ہفتوں میں جرمن قصائی خانوں پر اندرونی ناقص انتظامات اور ورکرز کی حالتِ زار کے تناظر میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ گزشتہ ایک دو ہفتوں کے دوران ساٹھ ہزار آبادی کے دو شہروں میں قائم دو بُوچر ہاؤسز کے بے شمار ورکرز میں کووڈ انیس کی بیماری پھیلنے کے واقعات سے سارے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ جرمن مِیٹ انڈسٹری کی سرخیل کمپنی ٹوئنِیز کے ایک ہزار ورکرز میں کورونا وائرس کی تشخیص کی گئی تھی۔

ع ح، ع آ (روئٹرز، اے ایف پی)

چین کے ’سانپوں کے گاؤں‘ میں بے روزگاری

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید