سعودی حکومت کا اقدام: ایک سے زائد مرتبہ حج کرنے پر اضافی فیس
1 اگست 2017پاکستان کے انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبون کے مطابق جن افراد نے گزشتہ تین برسوں، یعنی دوہزارچودہ، پندرہ یا سولہ میں سے کسی ایک سال بھی حج کیا ہے اور وہ اس برس بھی حج کرنے کے خواہشمند ہیں، تو انہیں اضافی طور پر دوہزار سعودی ریال، جو تقریباﹰ ساٹھ ہزار پاکستانی روپے بنتے ہیں، ادا کرنے پڑیں گے۔
مقدس مقامات کی بین الاقوامی حیثیت کا قطری مطالبہ ’اعلان جنگ‘، سعودی عرب
کیا نئے سعودی ولی عہد کی پاکستان پالیسی زیادہ سخت ہو گی؟
وزارتِ مذہبی امور کے ایک افسر نے اخبار کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سعودی حکومت نے یہ اضافی فیس غیرضروری ہجوم کو کم کرنے کے لیے لگائی ہے اور اس کا مقصد ان افراد کو حج اور عمرہ ادا کرنے کے مواقعے فراہم کرنا ہے، جو اپنی زندگیوں میں ابھی تک ایک مرتبہ بھی حج اور عمرہ نہیں کر پائے ہیں۔
لیکن ناقدین کے خیال میں بہتر مالی استطاعت رکھنے والے افراد اضافی رقم ادا کر کے بھی حج ادا کرنے چلے جائیں گے، تاہم اصل مسئلہ ان متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ہوگا، جو ایک سے زائد بار حج کرنے کے خواہش رکھتے ہیں۔
ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریڑی امان اللہ سلیمان نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنا موقف دیتے ہوئے کہا، ’’اس فیصلے سے اشرافیہ یا امیر لوگوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ وہ بد ستور شعبان اور رمضان میں وہاں جائیں گے۔ لیکن جو متوسط طبقے کے افراد ہیں، ان پر بہت مالی بوجھ پڑے گا کیوں کہ ساٹھ ہزار روپے ایک عام پاکستانی کے لیے بہت بڑی رقم ہے۔ خصوصاﹰ اگر آپ کے ساتھ آپ کے والدین اور گھر کے دیگر افراد بھی یہ سعادت دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہوں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’دوہزار پندرہ میں نو لاکھ افراد نے عمرے کی ادائیگی کی تھی اور سن دوہزار سولہ میں یہ تعداد بارہ لاکھ تھی۔ جب کہ حج کرنے والے افراد کی تعداد دو برس پہلے تقریباﹰ ایک لاکھ اسی ہزار کے قریب تھی، جو اب تقریباﹰ ایک لاکھ اڑتیس ہزار کے قریب ہے۔ تو یقیناً اس تعداد میں اس سال یعنی دوہزار سترہ میں کمی آئے گی اور نتیجے کے طور پر ہمارے کاروبار بھی متاثر ہوں گے۔‘‘
سعودی حکومت نے ماضی میں بھی ایسے فیصلے کیے تھے، لیکن بعد میں انہیں واپس لے لیا گیا تھا۔ امان اللہ خان کا کہنا تھا کہ ان کی ایسوسی ایشن کی درخواست پر حکومت پاکستان نے سعودی انتظامیہ سے بات چیت کی تھی اور اس کے بعد ہی انہوں نے یہ فیصلہ واپس لیا تھا۔ ’’ہماری ایسوسی ایشن ایک بار پھر حکومت سے رابطہ کرے گی اور سعودی انتظامیہ کو بھی درخواست کرے گی کہ وہ یہ فیصلہ واپس لیں۔ دیکھیں پھر کیا ہوتا ہے۔‘‘
لیکن اس کاروبار سے وابستہ کچھ افراد کا خیال یہ بھی ہے کہ نئے سعودی اقدامات صرف پیسے بنانے کے بہانے ہیں۔ کراچی کے ایک ٹریول ایجنٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس اقدام سے (حج کے دوران) رش کم نہیں ہوگا ۔ ٹریول ایجنٹس کو سارے طریقے معلوم ہیں۔ لوگ محرم بن کر چلے جائیں گے۔ یہ صرف پیسے بنانے کے طریقے ہیں۔ سعودی معیشت کی حالت بری ہے اور اب سعودی حکومت اپنے اخراجات سے نمٹنے کے لیے اس طرح کی فیسیں لگا رہی ہے۔‘‘
تجزیہ کار صابر کربلائی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس میں کمرشل پہلو بھی ہو سکتے ہیں۔اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں یمن کی جنگ اور خطے کے دوسرے ممالک میں سعودی مداخلت کی وجہ سے اس کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے، اور اب وہ اس نقصان کا ازالہ اس طرح کر رہے ہیں کہ اس طرح کی فیسیں لگائی جا رہی ہیں۔زائرین کی خدمت کرنا تو ثواب کا کام ہے۔ کربلا، مشہد اور دمشق سمیت دنیا میں اور بھی کئی مقامات پر بھی لاکھوں کی تعدا د میں زائرین جاتے ہیں لیکن وہاں تو اس طرح کے کوئی اضافی پیسے نہیں لیے جار ہے۔‘‘
سعودی نائب ولی عہد ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا روانہ
قطر سعودی تنازعہ پاکستان کی معیشت مشکلات سے دوچار