سعودی عرب اور ایران کی سرکاری دوروں کی منصوبہ بندی
20 مارچ 2023سات سال قبل سفارتی تعلقات منقطع کرنے والے سعودی عرب اور ایران باہمی تنازعات کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو دارالحکومت ریاض کے دورے کی دعوت دی ہے۔ تہران کے صدارتی دفتر میں بادشاہ کی جانب سے متعلقہ خط کی وصولی کی تصدیق بھی کر دی گئی ہے۔ ایرانی صدارتی دفتر نے کہا ہے کہ رئیسی دعوت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ریاض کی حکومت نے ابتدائی طور پر اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے اس سے قبل اپنے سعودی عرب کے ہم منصب سے ملاقات کا اعلان کیا تھا۔
دعوت کا ''خیر مقدم‘‘
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ریاض کی طرف سے دورے کے دعوت نامے کا خیر مقدم کیا ہے۔
سفارتی تعلقاتمنقطع رکھنے کے برسوں بعد حال ہی میں سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے قریب آنا شروع ہوئے ہیں اور دونوں نے سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس مفاہمتی ڈیل میں چین نے ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔
اس ڈیل کے تحت دونوں ممالک نے اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے اور اقتصادی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا۔ بین الاقوامی سطح پر، ان دو دیرینہ دشمن ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی پر دوطرفہ اتفاق پر بڑے پیمانے پر مثبت ردعمل سامنا آیا ہے۔
کیا چین ایران کی علاقائی سالمیت پر سوال اٹھا رہا ہے؟
پراکسی جنگیں
اب تک دونوں ممالک خطے میں اثر و رسوخ کے لیے ایک دوسرے کے خلاف متحرک رہے ہیں۔ ایران خود کو شیعہ مسلمانوں کے محافظ کے طور پر جبکہ سعودی عرب سنیوں کی محافظ قوت کے طور پر خطے میں اہم کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ دونوں مسلم ریاستیں شام اور یمن کے خانہ جنگی والے ممالک میں مخالف فریقوں کی حمایت کرتی رہی ہیں۔
ایران اور سعودی عرب سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر اپنے سفارتی مشن دوبارہ کھولیں گے اور سکیورٹی اور اقتصادی تعاون کے اُن معاہدوں پر عمل درآمد کریں گے جن پر 20 سال سے بھی پہلے دستخط کیے گئے تھے۔
جہاں ایک طرف ایران اور سعودی عربکے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کی خبروں پر مثبت ردعمل سامنے آ رہا ہے، وہیں آسٹریلیا ایران پر نے نئی مالی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے ایرانی اداروں اور افراد پر سفری پابندیوں کا اعلان آسٹریلیا کے وزیر خارجہ پینی وونگ نے پیر کو کیا۔
انسانی حقوق کی پابندیوں کا نشانہ بننے والوں میں ایران کی اخلاقی پولیس کے چار ممبران بھی شامل ہیں جن کی حراست میں نوجوان کُرد ایرانی خاتون مہسا امینی کے ناروا سلوک کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد سے ایران میں ملک گیر احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
ک م/ ع ت(ڈی پی اے)