سعودی عرب اور شام کے مابین تعلقات بحال ہو جائیں گے
24 مارچ 2023خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ریاض اور دمشق کے درمیان تعلقات کی بحالی عرب ممالک کے بشارالاسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی سمت سب سے اہم پیش رفت ہوگی، جنہیں سن 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے بہت سے مغربی اور عرب ملکوں نے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔
دمشق سے تعلق رکھنے والے ایک ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ دونوں حکومتیں عید کے بعد اپنے سفارت خانے کھولنے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ عید کا تہوار اپریل کے تیسرے ہفتے میں ہو گا۔
یہ نئی پیش رفت ایسے وقت ہو رہی ہے جب رواں ماہ کے اوائل میں چین کی ثالثی میں علاقائی حریف ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کے معاہدے کا اعلان ہوا تھا۔
چین کی ثالثی میں سعودی ایران معاہدہ امریکہ کے لیے امتحان
سعودی عرب کے سرکاری نیوز چینل الاخباریہ نے سعودی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا، "مملکت سعودی عرب کے حکام اور شام میں ان کے ہم منصبوں کے درمیان قونصلر خدمات کی فراہمی دوبارہ شروع کرنے کے بار ے میں بات چیت جاری ہے۔"
خبر رساں ایجنسی اے ایف کے مطابق رپورٹ میں اس اقدام کے لیے کوئی مقررہ وقت کے بار ے میں نہیں بتایا گیا ہے۔ تاہم یہ نئی پیش رفت اپنے علاقائی حریفوں کے ساتھ اختلافات دور کرنے کے حوالے سے سعودی عرب کے تازہ ترین قدم کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں چین کی ثالثی میں سات برس بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے والے معاہدے کا اعلان ہوا تھا۔ دونوں حریف ممالک کے وزراء خارجہ نے گزشتہ دنوں فون پر بات چیت کی اور جلد ہی باہمی ملاقات کا عندیہ دیا ہے۔
ریاض گزشتہ کئی ہفتوں سے شام کے ساتھ مفاہمت کا اشارہ دے رہا ہے۔
شام میں عرب ملکوں کی امدادی سرگرمیاں میں اضافہ
ریاض نے 6 فروری کو جنوب مشرقی ترکی اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد شام میں باغیوں کے زیر قبضہ اور حکومت کے زیر کنٹرول دونوں ہی علاقوں میں امداد بھیجی۔ حالانکہ اس امداد میں بشارالاسد کی بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ حکومت کے ساتھ براہ راست رابطہ شامل نہیں تھا اور یہ امداد شامی ہلال احمر کے توسط سے فراہم کی گئی۔
تیونس کا شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان
ہلاکت خیز زلزلے کے بعد شام میں عرب ممالک کی امدادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حتی کہ وہ ممالک بھی اس میں حصہ لے رہے ہیں جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے بعد حالات کے معمول پر آنے کی مزاحمت کر رہے تھے۔
بشارالاسد اور ولادیمیر پوٹن میں ملاقات، کیا باتیں ہوئیں؟
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے فروری میں کہا تھا کہ عرب دنیا میں اس بات پر اتفاق رائے پیدا ہو رہا ہے کہ شام کے لیے ایک نیا طریقہ اختیار کیا جائے، جس میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے دمشق کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہوگی۔
شہزادہ فیصل نے میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "عرب دنیا میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ موجودہ جمود سود مند ثابت نہیں ہو رہا ہے اور ہمیں کوئی اور طریقہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔" انہوں نے بتایا کہ، "وہ طریقہ کار کیا ہوگا، یہ ابھی بھی وضع کیا جارہا ہے۔"
تھنک ٹینک یوریشیا گروپ میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے محقق ایہام کامل کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان خطے میں "زیادہ مستحکم ماحول" دیکھنا چاہیں گے، تاکہ انہیں اپنے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے زیادہ وقت ملے سکے۔
ایہام کامل نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،"ملکی معیشت کی جدید کاری کے لیے زیادہ مستحکم ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہ معاہدے ہو رہے ہیں۔"
معاہدے سے شامی پناہ گزینوں کو مدد ملے گی
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ شام کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی سے پڑوسی ممالک بالخصوص اردن اور لبنان میں بھی شامی پناہ گزینوں کو مدد مل سکتی ہے۔
بشارالاسد نے اتوار کے روز متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔ امارات کی سرکاری میڈیا کے مطابق صدر شیخ محمد بن زائد النہیان نے اسد کو بتایا کہ اب دمشق کے وسیع تر عرب خطے میں ضم کرنے کا وقت آگیا ہے۔
ان کا تیل کی دولت سے مالامال متحدہ عرب امارات کا گزشتہ کئی برسوں کے دوران یہ دوسرا دورہ تھا۔ اس سے قبل انہوں نے عمان کا دورہ کیا۔
شامی صدر بشارالاسد کا متحدہ عرب امارات کا تاریخی دورہ
خیال رہے کہ جمہوریت نواز مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے کچل دینے کی وجہ سے عرب ملکوں کی تنظیم عرب لیگ نے سن 2011 میں شام کو تنظیم سے نکال دیا تھا۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)