’سعودی عرب فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ پارلیمان کرے گی‘
27 مارچ 2015جمعے کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے نقطہٴ اعتراض پر جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ابھی تک سعودی عرب کی مدد کے لیے فوج بھجوانے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس بارے میں کوئی قیاس آرائی بھی ہے تو وہ اس کی تردید کے لیے تیار ہیں تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر سعودی عرب کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہوا تو پھر ہر قیمت پر اس کا دفاع کیا جائے گا۔ خواجہ آصف نے کہا:’’میں پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ اگر سعودی عرب کی سالمیت یا علاقائی خود مختاری کو خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان ہر حالت میں اس کا دفاع کرے گا۔‘‘
خورشید شاہ کا نکتہ اعتراض پر کہنا تھا کہ حکومت نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر یمن میں باغیوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر ارکان پارلیمنٹ اور عوام میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ قائد حزب اختلاف کے خدشات بجا مگر بے بنیاد ہیں۔ خواجہ آصف کے مطابق مشرقِ وسطیٰ اور عرب دنیا کے متعدد ممالک میں جنگ کا ماحول ہے اور پاکستان کسی ایسے تنازعے کو ہوا نہیں دینا چاہتا، جس کے اثرات مسلم دنیا پر تفرقے کی صورت میں پڑیں۔
انہوں نے کہا کہ اس (تفرقہ بازی) کی فالٹ لائنز پاکستان میں بھی موجود ہیں اور ان میں ہلچل مچانا اور پھر اس کے نتائج بھگتنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
خواجہ آصف کے مطابق پاکستان نے سعودی عرب کو پیشکش کی تھی کہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے پاکستانی وفد سعودی عرب آنے کے لیے تیار ہے تاہم خواجہ آصف کے مطابق یمن کا معاملہ عرب لیگ میں اٹھائے جانے کے سبب وفد ابھی روانہ نہیں ہو رہا لیکن ایک دو دن میں صورتحال واضح ہو جانے کے بعد وفد ضرور سعودی عرب جائے گا۔
جمعے کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سیاسی جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یمن میں حکومت مخالف حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی فوجی حمایت سے قبل ملکی پارلیمان کو اعتماد میں لے۔
حکومت کی اتحادی اور سعودی عرب کے قریب سمھجی جانے والی جماعت جمیعت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے پاکستان کے ہمہ جہت مفادات کو دیکھنا ہو گا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا:’’سعودی عرب سے ہمارے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کسی شک و شبے سے بالا تر ہیں لیکن کسی کی کمان میں ایک ملک کے خلاف لڑنا یہ ایک الگ بات ہے۔ ہم پہلے ہی فرقہ واریت سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ نہ ہو کہ بغیر سوچے کیا گیا کوئی فیصلہ ہمیں فرقہ وارانہ جنگ میں جھونک دے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی پرائی جنگیں لڑنے کی بڑی قیمت بھگت چکا ہے، اسے اب مزید اس طرح کے فیصلوں سے گریز کرنا ہو گا۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’ہم کیوں کسی کی لڑائی میں دخل دیں۔ حکومت کو جو بھی کرنا ہے، وہ بند کمرے میں فیصلہ کرنے کے بجائے سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں کے سامنے آ کر بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے اس معاملے کا حل نکالے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نےکہا ہے کہ پاکستان کو یمن میں جنگ کا حصہ بننے کی بجائے امن مذاکرات کے عمل میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ کیا پاکستان دوسروں کی جنگوں میں حصہ لے کر پہلے ہی کافی نقصان نہیں اٹھا چکا؟
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو اس وقت بھی فرقہ واریت کے بڑے مسئلے کا سامنا ہے اور پاکستان گذشتہ ایک دہائی میں بہت نقصان اٹھا چکا ہے۔
خیال رہے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سعودی عرب کی جانب سے یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کی حمایت کی یقنی دہانی سے متعلق خبریں آنے کے بعد حکومت پر اس بارے میں وضاحت کے لیے دباؤ بڑھ گیا تھا۔