یمن میں سعودی کارروائی میں ممکنہ شمولیت، پاکستان مخمصے میں
26 مارچ 2015جمعرات کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان تسنیم اسلم نے کہا، ’میں اس بات کی تصدیق کر سکتی ہوں کہ سعودی حکومت نے اس سلسلے میں ہم سے رابطہ کیا ہے اور ہم اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ میں فی الحال اتنا ہی کہہ سکتی ہوں‘۔
ترجمان نے یمن میں باغیوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستانی فوج بھجوانے یا نہ بھجوانے سے متعلق سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا۔
انہوں نے کہا کہ یمن میں پاکستانی ایمبیسی بند کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا، البتہ خراب ہوتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے اپنے سفارتی عملے کو الرٹ کر دیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اگر ضرورت ہوئی تو سفارتی عملے کو وہاں سے نکال لیا جائے گا۔
خیال رہے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے حوالے سے ایسی خبریں آئی تھیں، جن کے مطابق پاکستان نے یمن میں حوثی قبائل کے خلاف کارروائیوں میں سعودی عرب کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اس جنگ میں حصہ لینے کو بھی تیار ہے۔
خارجہ امور کے ایک پاکستانی ماہر طارق پیر زادہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان سے تعاون کی درخواست متوقع تھی۔ انہون نے کہا:’’اس امر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے تعاون مانگا ہے اور یہ اس لیے کہ دونوں ممالک کے درمیان انتہائی قریبی سٹریٹجک تعلقات ہیں تو اب پاکستان کو بس یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس تعاون کی نوعیت کیا ہو گی، یہ زمینی ہو گا، فضائی ہو گا یا اس کی کوئی اور شکل ہو گی۔‘‘
یمن کی موجودہ صورتحال کے پس منظر میں، جہاں حوثی باغیوں کو ایران کی مبینہ حمایت کی بات کی جا رہی ہے تو کیا اس تازہ پیشرفت سے پاک ایران تعلقات پر بھی کوئی اثر پڑے گا؟ اس سوال کے جواب میں طارق پیر زادہ کا کہنا ہے:’’ایران اور پاکستان پہلے بھی کوئی بہت مثالی تعلقات انجوائے نہیں کر رہے لیکن یقیناً پاکستان کی طرف سے یمن میں کسی بھی ممکنہ کارروائی سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان سرد مہری بڑھے گی اور اس سے لمبے عرصے تک دونوں ممالک کے تعلقات میں خرابی آ سکتی ہے۔‘‘
پاکستان کی موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ دیرینہ قریبی مراسم ہیں۔ اسی سبب جب انیس سو ننانوے میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو گرفتار کیا تو انہیں سعودی حکمرانوں کی مبینہ مداخلت کے سبب ملک سے باہر جا کر سعودی عرب میں قیام کی اجازت دے دی گئی تھی۔
پھر پاکستان نے جب مئی انیس سو اٹھانوے میں بھارت کے جواب میں جوہری دھماکے کیے تو بین الاقوامی پابندیوں کے دور میں سعودی عرب نے تیل کی بلا معاوضہ رسد کے ذریعے پاکستانی معیشت کو سہارا دیے رکھا۔
تاہم گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستانی حکومتوں کے خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعاون کی ایک جہت اندرون ملک بھی ہے۔ یہ جہت فرقہ وارانہ نوعیت کی ہے۔ ماضی قریب میں جب بحرین کی جانب سے اپنے ملک میں شیعہ مظاہرین پر قابو پانے کے لیے پاکستان سے مظاہرین کو منتشر کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کی بھرتی کی خبریں سامنے آئیں تو مختلف شیعہ تنظمیوں نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ اس عرصے میں دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ایسی وال چاکنگ بھی دیکھی گئی، جس میں سعودی عرب کے شاہی خاندان اور پاکستانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی تھی۔
بعض ماہرین کے خیال میں پاکستان کو اس معاملے کے فرقہ وارانہ پہلو سے ہٹ کر بھی اپنے زمینی حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
فارن پالیسی کے ایک ماہر مشرف زیدی کا کہنا ہے:’’پاکستان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایران ہو یا سعودی عرب، وہ اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں، پاکستان کو بھی اپنے مفاد کو دیکھنا چاہیے۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ بھی دوستی رکھے اور ایران کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر رکھے تو میرے خیال میں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘