پاکستان میں توہین رسالت کے قانون پر مذہبی رہنماؤں کا نیا مؤقف
16 جنوری 2011بریلوی سنی رہنما حاجی حنیف طیّب بھی رحمان ملک سے کراچی میں ملاقات کرنے والے مذہبی رہنماؤں میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ توہین رسالت کے ناجائز استعمال پر غور کرنے کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی، جو مختلف مسلکوں کے دس ارکان پر مشتمل ہو گی۔
خیال رہے کہ توہین رسالت کا پاکستانی قانون متنازعہ ہے اور اس کے تحت الزام ثابت ہونے پر سزائے موت کا فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون پاکستان میں بالخصوص اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور بیشتر اوقات مدعی ذاتی دشمنی نکالنے کے لئے مقدمہ درج کرا دیتے ہیں۔
اس متنازعہ قانون پر پاکستان میں گاہے بگاہے بحث ہوتی رہی ہے۔ تاہم گزشتہ برس نومبر میں اس میں تیزی اس وقت آئی، جب صوبہ پنجاب کی ایک ضلعی عدالت نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے لیے توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔
اس قانون کے تحت سزائے موت کا سامنا کرنے والی وہ پہلی خاتون ہے، جس کی وجہ سے یہ پاکستانی قانون عالمی توجہ کا مرکز بنا۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر نومبر میں ہی آسیہ بی بی سے ملنے جیل پہنچ گئے تھے، جہاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ملزمہ کو معصوم قرار دیا اور ان کے لیے صدارتی معافی کی کوشش کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم پر بھی زور دیا تھا۔
اس وجہ سے انتہاپسند مذہبی تنظیموں نے سلمان تاثیر کے خلاف انتہائی غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ چار جنوری کو سلمان تاثیر کو ان کے ایک محافظ ملک ممتاز حسین قادری نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا، جس نے اسی دِن میڈیا کو بتایا کہ اس نے توہین رسالت قانون پر گورنر کی مخالفت کی وجہ سے ہی انہیں مارا۔ اس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔
سلمان تاثیر کے قتل کے بعد انتہاپسند مذہبی رہنماؤں نے، جن میں بریلوی علماء بھی شامل بتائے جاتے ہیں، سلمان تاثیر کے قتل کا سوگ منانے سے خبردار کیا تھا جبکہ توہین رسالت کے قانون میں کسی بھی طرح کی تبدیلی پر خطرناک نتائج کی دھمکی بھی دی تھی، جس کے بعد پاکستانی وزیر اعطم یوسف رضا گیلانی نے اعلان کیا تھا کہ حکومت اس قانون میں ترمیم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر