سمندری راستے سے یونان آنے والوں میں 36 فیصد بچے، یونیسف
3 فروری 2016اقوام متحدہ کے بچوں کے لیے ادارے یونیسف کا کہنا ہے کہ یورپ میں جاری تارکین وطن کے آغاز کے بعد سے پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے مہاجرین میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
یونیسف کی خاتون ترجمان سارا کورو کے مطابق، ’’ترکی سے خطرناک سمندری سفر کے ذریعے یونان پہنچنے والے موجودہ مہاجرین میں سے 36 فیصد تعداد بچوں پر مشتمل ہے۔‘‘
سارا کورو کا مزید کہنا تھا کہ ایسا بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ پہنچے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کا تناسب 60 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ برس کے مقابلے میں ایک نمایاں تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
پچھلے سال جون کے مہینے کے اعداد و شمار کے مطابق 73 فیصد مرد مہاجرین یونان سے مقدونیہ ميں داخل ہوئے تھے۔ ان میں سے 10 فیصد کے قریب تارکین وطن اٹھارہ سال سے کم عمر تھے۔
یونیسف کی خصوصی معاون برائے مہاجرین و تارکین وطن مَیری پیئر پوریئے کا کہنا ہے کہ یورپ کی طرف ہجرت کے دوران عورتوں اور بچوں کو مردوں کے نسبت زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ پوریئے نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اتنی بڑی تعداد میں یورپ کی جانب گامزن عورتوں اور بچوں کو نہ صرف سمندری سفر کے دوران خطرات درپیش ہیں بلکہ انہیں خشکی پر بھی تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
پوریئے کے اس بیان کی تائید بین الاقوامی ادارہ برائے ہجرت IOM کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے گئے اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے۔
آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ میں سے ایک مہاجر شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
آئی او ایم کے مطابق جنوری سمیت گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران بحیرہ ایجیئن میں 330 بچے ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
ترک ساحلی محافظوں کے مطابق ترکی کے صوبہ ازمیر کے قریب کشتی الٹنے کے ایک تازہ ترین واقعے میں سات بالغ تارکین وطن اور دو کم سن بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔ چند روز قبل بھی ایک ایسے ہی واقعے میں چالیس کے قریب مہاجرین ہلاک ہو گئے تھے۔
سرد اور ناموافق موسم کے باوجود صرف جنوری کے مہینے میں 62 ہزار سے زائد پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یونانی جزیروں پر پہنچے ہیں۔ آئی او ایم کے مطابق زیادہ تر شام، افغانستان اور عراق سے تعلق رکھنے والے ان مہاجرین میں سے ایک تہائی سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔
یورو پول نے گزشتہ دنوں ہی بتایا تھا کہ اکیلے سفر کرنے والے 10 ہزار سے زائد نابالغ بچے یورپ آنے کے بعد گم ہو چکے ہیں۔ یونیسف کی خاتون ترجمان سارا کورو کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ یہ یورپی نظام بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور یونین کو اس سلسلے میں فوری اور مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔