سمندری طوفان ’نیلوفر‘ آج پاکستانی ساحلوں سے ٹکرائے گا
29 اکتوبر 2014ماہرین کے مطابق اس طوفان سے فی الحال پاکستانی ساحلی علاقوں کو کوئی بڑا خطرہ لاحق نظر نہیں آتا۔ پاکستانی محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر اخلاق جمیل کے مطابق اس طوفان کا رخ عمان کی طرف ہے اور اگر اس نے اپنا رخ تبدیل کیا تو سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔ پاکستانی محکمہ موسمیات نے اس طوفان کو ’نیلوفر‘ کا نام دیا ہے، جس کے بعد پورے ملک میں ایک دلچسپ بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
چیف میٹیورولوجسٹ توصیف عالم کہتے ہیں کہ کسی بھی سمندری طوفان کا نام محض یادداشت اور شناخت کے لیے رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی طوفان کا نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم سارک کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے، جس کے تحت گذشتہ طوفان کا نام بھارت نے تجویز کیا تھا، اس مرتبہ پاکستان کی باری تھی اور آئندہ آنے والے کسی بھی طوفان کا نام سری لنکا تجویز کرے گا۔
کراچی کی انتظامیہ نے صوبائی حکومت کی ہدایت پر سمندری طوفان کے پیش نظر عوام کے ساحل پر آنے پر تین دن کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔ ساحل کی طرف جانے والی سڑکوں کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پولیس اہلکار بھی تعینات کردیے گئے ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر درجنوں افراد کے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو جانے کے باعث سمندر میں نہانے پر پہلے ہی سے پابندی عائد تھی۔ اب کراچی کے ساحلی علاقے بالکل ویران ہو گئے ہیں۔
صوبہ سندھ کی اسمبلی میں اکثر مسائل کی طرح اس سمندری طوفان کو بھی شاید غیر سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔ جب ایک خاتون رکن اسمبلی ارم عظیم فاروق نے ایوان کی توجہ اس سمندری طوفان سے بچاؤ کے لیے کیے گئے اقدامات کی طرف دلوانا چاہی تو اسپیکر آغا سراج درانی نے انتہائی معصومیت سے پوچھا: ’’نیلوفر کون ہے؟ کیا یہ کسی خاتون رکن اسمبلی کا نام ہے؟‘‘ پھر انہیں یاد آیا کہ نیلوفر تو ماضی کی ایک معروف اداکارہ تھیں۔
جب رکن اسمبلی نے اپنی بات کی وضاحت کی تو اسپیکر نے انتہائی اعتماد سے کہا، ’’ساحل پر تو عبداللہ شاہ غازی کا مزار ہے۔ لہٰذا کوئی خطرے کی بات نہیں۔ پھر بھی اگر کسی کو ڈر ہے تو وہ اندرون سندھ چلا جائے۔‘‘
اسمبلی میں ہونے والی غیر سنجیدہ گفتگو کے برعکس محکمہ صحت نے اپنی طرف سے ہنگامی انتظامات مکمل کر لیے ہیں، اضافی ادویات ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ عملے کی چھٹیاں بھی منسوخ کردی گئی ہیں۔
ساتھی ہی ماہی گیروں کے لیے جاری ہدایت نامے پر بھی عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے نائب چیئرمین سلطان قمر شیخ کے مطابق شکار کے لیے کھلے سمندر میں جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے اور سمندر میں موجود ماہی گیروں کو فوری واپسی کی ہدایت کردی گئی ہے۔ پانچ سو سے زائد لانچیں کھلے سمندر سے ساحل پر واپس لوٹ چکی ہیں مگر اب بھی تین سو سے زائد لانچوں پر سوار ماہی گیر سمندر میں ہیں جن کی منگل کی شام تک واپسی کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ ہر گھنٹے کی صورت حال پر مبنی رپورٹیں بھی تیار کی جا رہی ہیں۔ ساحل سے متصل گوٹھیں خالی کرانے کے لیے مساجد سے اعلانات بھی کرائے جا رہے ہیں۔
تمام تر اقدامات کے باوجود ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ دو ہزار پانچ کے ہولناک زلزلے کے بعد وفاقی اور صوبائی سطح پر قائم کی جانے والی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز موجود تو ہیں مگر نظر کہیں نہیں آتیں۔