سورج : کل، آج اور کل
21 جون 2020سورج کی کل کمیت کا تین چوتھائی ہائیڈروجن پرمشتمل ہے، جبکہ باقی کمیت میں زیادہ تر ہیلیم عنصر ہے اس کےعلاوہ کچھ مقدار میں لوہا، آکسیجن، کاربن اور نیون عناصر بھی موجود ہیں۔
آرکٹک کے اوپر اوزون میں پیدا شدہ سوراخ بھر گیا
سورج کا اپنا رنگ سفید ہے تاہم زمین سے دیکھنے پر یہ پیلا اور نارنجی دکھائی دیتا ہے۔ اس کے پیلے یا نارنجی دکھائی دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی روشنی کی سپیکٹرم کلاس جی ٹو وی ہے۔ جی ٹو سے مراد سطح پر پایا جانے والا درجہ حرارت اور سی سے مراد اس کی روشنی کا باعث بننے والے وہ دھماکے ہیں جو جوہری عمل کے نتیجے میں ہو رہے ہیں۔ سورج کی سطح کا درجہ حرارت تقریبا پانچ ہزار پانچ سو دس درجہ سینٹی گریڈ ہے جبکہ اس درجہ حرارت کا باعث بننے والا جوہری عمل، فیوژن ری ایکشن یا عمل ایتلاف ہے۔ سورج سے زمین کا اوسط فاصلہ ایک سو انچاس اعشاریہ چھ ملین کلومیٹر ہے اور یہ فاصلہ روشنی آٹھ منٹ انیس سیکنڈ میں طے کرتی ہے۔ سورج کا مرکز یا کور تھرمو نیوکلیئر ری ایکشن کی وجہ سے سب سے زیادہ گرم ہے اور وہاں کا درجہ حرارت ایک کروڑ درجے سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہے۔ کور اور سطح کے درمیان کا درجہ حرارت بیس لاکھ درجہ سینٹی گریڈ ہے۔
سورج پر جاری جوہری دھماکے
جس طرح کسی بڑے ایٹم کا ٹوٹ کر دو چھوٹے ایٹموں میں تقسیم ہوجانا اور نتیجے میں بڑی مقدار میں توانائی کا اخراج ہونا فشن ری ایکشن کہلاتا ہے بالکل اسی طرح دو چھوٹے ایٹموں کا مل کر ایک نیا ایٹم تخلیق کرنا اور نتیجے میں فشن ری ایکشن سے بھی زیادہ مقدار میں توانائی خارج کرنا عمل ایتلاف یا فیوژن ری ایکشن کہلاتا ہے۔
اس عمل کا باعث اصل میں وہ پروٹانز ہیں جو بڑی مقدار کی توانائی کی موجودگی میں دوسرے پروٹانوں کے ساتھ ملک کر نئے ایک نئے ایٹم کی تخلق کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے مرکز میں ایک پروٹان ہوتا ہے۔ اگر ایک ہائیڈروجن ایٹم میں موجود پروٹان دوسرے ہائیڈروجن ایٹم کے پروٹان کے ساتھ مل جائے تو مرکز میں پروٹانوں کی تعداد دو ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں ہائیڈروجن ایٹم، ہیلیم ایٹم میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس عمل کے آغاز کے لئے بہت بڑی مقدار میں توانائی کی ضرورت ہوتی ہے تاہم یہ عمل ایک مرتبہ شروع ہوجائے تو اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک ہائیڈروجن کا ایک بھی ایٹم موجود ہے۔
فیوژن ری ایکشن اور ہائیڈروجن بم
ہائیڈروجن بم اسی عمل کے نتیجے میں بہت بڑی مقدارمیں توانائی اور تابکاری خارج کرنے کا نام ہے۔ اس عمل میں خارج ہونے والی توانائی کی مقدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک اس عمل کو کسی پرامن مقصد کے لئے استعمال میں نہیں لایا جا سکا۔ ہائیڈروجن بم میں پہلے فشن ری ایکشن کے تحت دھماکہ کر کے یورینیم یا پلوٹونیم کے ایٹم کو دو چھوٹے ایٹموں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں توانائی کی بڑی مقدار حاصل کی جاتی ہے اور پھر اس توانائی کی موجودگی میں دوہائیڈروجن ایٹم مل کر ایک ہیلیم ایٹم میں تبدیل ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں اس سے بھی کئی گنا زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔
فیوژن ری ایکشن تقریبا تمام ہی ستاروں میں قدرتی طور پر ہو رہا ہے اور یہی عمل ان کی روشنی کا باعث ہوتا ہے۔ مصنوعی طور پر فیوژن ری ایکشن پر تحقیق کا آغاز 1940ء میں ہوا تاہم اس پر تحقیق 1952ء میں مکمل کی گئی۔ 1960ء سے اب تک اس عمل کو پرامن مقاصد کے لئے کنٹرولڈ صورت میں کرنے کے لئے تحقیق کی جارہی ہے تاہم اب تک اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
اس عمل کی سائنسی تعریف کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ ایٹموں کے مرکزوں میں پروٹان کی موجودگی ان مرکزوں پر مثبت چارج کا باعث ہوتی ہے۔ عمومی طور پر مثبت چارج، مثبت چارج کو دفع کرتے ہیں لیکن بہت بڑی مقدار میں حرارت کی موجودگی میں الیکٹرو میگنٹک ری پلشن پیدا ہوتا ہے اور یہی ان پروٹانوں کو ایک دوسرے کے قریب پہنچا دیتا ہے۔ پروٹان اسی قوت کی موجودگی میں کسی ایٹم کے مرکزے میں بندھے ہوتے ہیں۔ بہت بڑی مقدار میں حرارت مصنوعی طور پر ان دونوں پروٹان کو اپنے اپنے مرکزوں سے نکل کر ایک دوسرے کے قریب کرتی چلی جاتی ہے۔ پروٹان ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں توایک نیا مرکزہ تخلیق ہو جاتا ہے اور اس نتیجے میں نیوکلیئر تھرمو انرجی خارج ہوتی ہے۔ یہ توانائی فشن ری ایکشن کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہائیڈروجن بم یورینیم سے تیار کردہ عام ایٹم بم کے مقابلے میں دس گنا زیادہ توانائی کے اخراج کا باعث ہوتا ہے۔ عام کیماوئی عمل کے مقابلے میں نیوکلیائی عمل میں توانائی کے زیادہ مقدار میں اخراج کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ الیکٹرونوں کے مقابلے میں ایٹموں کے مرکزے لاکھوں گنا زیادہ توانائی کی وجہ سے بندھے ہوتے ہیں اور انہیں توڑنے سے اسی قدر زیادہ توانائی بھی خارج ہوتی ہے۔ ایک بار یہ عمل شروع ہوجائے تو زبردست توانائی کے اخراج کے باعث، آس پاس موجود دوسرے ایٹموں میں بھی یہی عمل شروع ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک اس عمل کو قابو میں کرنا ممکن نہیں ہو پایا۔
سورج کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
سو سورج پر جاری یہ فیوژن ری ایکشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک وہاں ہائیڈروجن ایٹم موجود ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج پر کتنی ہائیڈروجن موجود ہے اور سورج کب تک اسی طرح روشنی کا منبع بنا رہے گا۔ کیا سورج پر موجود یہ ہائیڈروجن کسی روز ختم ہو جائے گی اور اگر ایسا ہوگا تو کیا ہو گا؟
سورج جیسے ستارے کی عمومی طور پرعمر دس بلین سال ہوتی ہے۔ جب سورج پر موجود تمام ہائیڈروجن ہیلیم میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج کا مرکز یا کور ٹوٹ کر درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس کا حتمی نتیجے یہ نکلے گا کہ سورج پر موجود ہیلیم کاربن ایٹموں میں تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی۔ ہائیڈروجن ایٹموں کے ہیلیم ایٹموں میں تبدیل ہونے کے نتیجے میں جتنی توانائی خارج ہوتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ حرارت اس وقت خارج ہوتی ہے جب ہیلیم ایٹم کاربن میں تبدیل ہو ۔ اس لئے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سورج کا درجہ حرارت آج کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جائے گا۔
لہذٰا آج سے کئی سو ملین سال بعد مادے کی ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں تمام ہائیڈروجن کے ختم ہونے کے بعد سورج کی کمیت کچھ کم ہوگی تاہم حجم بڑھے گا اور یہ حجم اتنا ہو گا کہ اس وقت زمین اور مریخ کے موجودہ مدار اس کے اندر آجائیں گے تاہم کمیت میں کمی کی وجہ سے سورج کی کشش میں کمی کے باعث زمین، مریخ اور دیگر سیارے اپنے مدار بھی سورج سے دور لے جائیں گے۔ اس وقت سورج پیلے کی بجائے سرخ رنگ کا دکھائی دیا کرے گا۔ تاہم کئی ستاروں پر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ وہاں کمیت ختم ہوجانے کے باعث فیوژن ری ایکشن رک جائے تو آہستہ آہستہ یہ ستارے سرد پڑنا شروع کر دیتے ہیں ایسی صورت میں ان کے حجم میں کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ان پر موجود باقی ماندہ کمیت مرکز کی جانب سکڑنے لگتی ہے۔ مزید ٹھنڈا ہونے پر آہستہ آہتسہ ان کا رنگ مکمل طور پر سیاہ ہو جاتا ہے تاہم ان ستاروں کی کشش میں انتہائی اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے ہاں کمیت میں اضافے کے لئے آس پاس موجودہ چھوٹے ستاروں اور سیاروں کو نگلنے لگتے ہیں۔ ایسے ستاروں کو بلیک ہولز کہتے ہیں۔ سو ایسا بھی ممکن ہے کہ آج سے کرڑوں برس بعد سورج ایک بلیک ہول ہوگا اورزمین سورج کے وجود کا حصہ۔