’’کیا زمین ساکن ہے؟‘‘
31 مئی 2020اس ویڈیو پر مختلف پاکستانی سوشل میڈیا صارفین طنزیہ تبصرے بھی کر رہے ہیں، تاہم بعض صارف اس خیالیے کو رد بھی نہیں کرتے۔ زمین گردش میں ہے یا ساکن، صدیوں پہلے یہ سوال یقیناﹰ انسان کے لیے معمہ تھا۔ تیسری صدی قبل مسیح میں یونانی ریاضی دان آریسٹرچوس نے پہلی بار ایک خاکہ تیار کیا، جس میں سورج کو کائنات کا مرکز گردانا گیا تھا جب کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی تھی۔ اس کے بعد بھی مختلف ادوار میں اس موضوع پر بحثیں ہوتی رہیں۔ چار قبل مسیح میں تاہم ارسطو نے اس نظریے کو 'مشاہدے کے برخلاف‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ ارسطو کا کہنا تھا کہ زمین حرکت کرتی تو نظارہ کرنے والے کو حرکت محسوس ہو جاتی اور حرکت کی وجہ سے زمین پر ہوا فقط ایک جہت میں اور مسلسل ہونا چاہیے تھی۔ ارسطو کا خیال تھا کہ زمین گول نہیں بلکہ فلیٹ (ایک ہم وار اور سیدھی سطح) ہے اور کائنات کا مرکز ہے اور چاند سورج، ستارے اور تمام دیگر اجرامِ فلکی اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔
کومٹ پر آرگینک مالیکیولز کی موجودگی
یہ نظریہ ایک طویل عرصے تک قبول کیا جاتا تھا۔ تاہم مسلم سائنس دانوں نے پہلی بار اس نظریے کو باقاعدہ طور پر رد اور زمین کی گردش کو دسویں صدی میں تسلیم کیا۔ مسلم ماہر فلکیات ابو ریحان البیرونی نے کہا تھا کہ ابوسعید السجزی کی تخلیق ایسٹرولیب (استارہ یاف) اصل میں زمین کے گردش کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، نہ کہ آسمان کی گردش کے لحاظ سے۔ اس کے بعد طوسی اور چند دیگر مسلم سائنس دانوں نے بھی زمین کی گردش پر بحث کی۔
یورپ میں قرونِ وسطیٰ میں تاہم کئی ماہرین فلکیات ارسطو کے ہی نظریے کو درست سمجھتے رہے۔ ارسطو کے نظریے سے پہلی بار واضح اختلاف ماہر ریاضی نیکولاؤس کوپرنیوس نے سولہویں صدی میں کیا۔ انہوں نے اس کے لیے ہولوسینٹرک کا استعمال کیا، جس میں زمین کی گردش کو ناپا گیا تھا۔
سترہویں صدی کے آغاز پر ویلیم گلبرٹ نے زمینی کی مقناطیسی قوت کے تناظر میں زمین کی گردش کو پرزور انداز سے تسلیم کیا اور اسے ایک طرح سے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ بعد میں کیپلر اور گیلیلیو نے بھی اس موضوع پر مزید تحقیقی اور تجرباتی کام کیا۔
لیکن یہ معاملہ اس وقت ایک طرح سے مکمل طور پر حل ہو گیا، جب نیوٹن نے تجاذبی قانون واضح کیا۔
تجاذب کی قوت زمین کی گردش کو نہایت عمدہ طریقے سے واضح کرتی ہے۔ نیوٹن کے قانون کے مطابق زمین اگر سورج کے گرد تیز رفتاری سے گردش نہ کرتی، تو سورج میں جا گرتی۔ تجاذب کا یہ قانون سورج اور زمین کے گرد مرکز مائل قوت اور مرکز گریز قوت کو بھی تفصیلی انداز سے واضح کرتا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ نیوٹن نے تجاذب کی قوت کی ریاضی کی مدد جانچ کے لیے کلیہ تو لکھ ڈالا، تاہم انہیں بھی اس تجاذب پیدا ہونے کی وجہ کا علم نہیں تھا۔ تجاذب کی قوت پیدا کیوں ہوتی ہے، اس کی وضاحت بیسویں صدی میں آئن اسٹائن نے اپنے نظریہ اضافیت کی مدد سے کی تھی۔
زمین کی گردش سے متعلق ابہام اور سوالات تو ایک مدت پہلے ختم بھی ہو چکے۔ اکیسویں صدی میں جب انسان چاند پر کئی مشن بھیج چکا، زمین کے باہر مدار میں بین الاقوامی خلائی مرکز محو پرواز ہے۔ درجنوں خلائی مشن اب تک مختلف سیاروں کی جانب بھیجے جا چکے ہیں۔ زمین کی گردش کی وجہ سے وقت اور دنوں کا حساب طے ہے۔ گردش ہی کی بنا پر اگلے کئی دہائیوں بلکہ صدیوں میں چاند اور سورج گرہن تک کی تاریخیں موجود ہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ کس طرح زمین کو ساکن سمجھا جا سکتا ہے؟