سوچنے کی صلاحیت رکھنے والا جاپانی روبوٹ
19 اکتوبر 2011جاپان کے ٹوکیو انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر اوسامُو ہاسے گاوا نے دنیا میں پہلی مرتبہ ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جو روبوٹس کو اپنے گرد وپیش کا مشاہدہ کرنے اور انٹرنیٹ کے ذریعے ریسرچ کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اس طرح روبوٹس میں یہ سوچنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ کسی خاص مسئلے کو کس طرح بطریق احسن حل کر سکتے ہیں۔
پروفیسر ہاسے گاوا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’اب تک تیار کیے گئے زیادہ تر روبوٹس وہ کام کرنے میں تو بہت اچھے ہیں جن کے لیے انہیں خاص طور پر تیار یا پروگرام کیا گیا ہوتا ہے، لیکن انہیں اس اصل دنیا کے بارے میں کہ جہاں انسان رہتے ہیں زیادہ کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہمارے کام کا مقصد روبوٹس اور اصل دنیا کے درمیان ایک طرح سے تعلق قائم کرنا ہے۔‘‘
’سیلف آرگنائزنگ انکریمنٹل نیورَل نیٹ ورک‘ (SOINN) ایک ایسا نظام ہے جو روبوٹ کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے علم کو، یعنی جو کچھ انہیں معلوم ہوتا ہے، اسے ایسے کاموں کو انجام دینے یا مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کرے جس کے بارے میں انہیں کہا جاتا ہے۔
SOINN کسی بھی مسئلے سے متعلق معلومات اپنے گرد وپیش سے جمع کرتا ہے۔ مثال کے طور پر لیباریٹری میں موجود SOINN کی حامل مشین کو جسے پہلے سے یہ نہیں بتایا گیا کہ کسی کپ میں پانی بھر کر کسی کو کیسے پیش کرنا ہے، اسے اگر کہا جائے کہ ’پانی پیش کرو‘ تو یہ اس کام کو ان مختلف حصوں میں تقسیم کر لیتی ہے جن کے بارے میں اسے پہلے سے معلوم ہے۔ مثلاﹰ یہ ایک کپ اٹھائے گی، ایک بوتل اٹھائے گی، بوتل سے پانی کپ میں ڈالے گی اور آخر میں پانی سے بھرا کپ آپ کے سامنے رکھ دے گی۔
ایک اور تجربے میں SOINN نظام نے مشین کو اس قابل بنایا کہ وہ انٹرنیٹ پر یہ تلاش کرے کہ کوئی خاص چیز دیکھنے میں کیسی ہے یا کسی لفظ کا مطلب کیا ہے۔
ہاسے گاوا کی ٹیم اب ان کوششوں میں مصروف ہے کہ ان ساری مہارتوں کو جمع کر کے ایک ایسی مشین تیار کی جائے جو انٹرنیٹ پر آن لائن سرچ کی مدد سے کسی بھی دیے گئے کام کو مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
یہ نظام غیر ضروری معلومات کو کام کی بات سے علیٰحدہ کر سکتا ہے جسے تیکنیکی زبان میں نوائز یا شور کہا جاتا ہے۔ دیگر روبوٹس میں یہ صلاحیت نہیں ہے اور نوائز کے باعث وہ درست کام نہیں کر سکتے۔ ہاسے گاوا کے مطابق یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے آپ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے اپنے ساتھی کے ساتھ بات کرتے ہوئے اپنے ارد گرد کی آوازوں سے بالکل پریشان نہیں ہوتے یا ان پر دھیان نہیں دیتے۔ اسی طرح آپ کسی بھی جسم کو مختلف روشنیوں یا مختلف زاویوں سے دیکھنے کے باوجود بھی پہچان لیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ اس کام کو اس قدر اچھے طریقے سے انجام دیتا ہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنے اردگرد موجود آوازوں میں سے صرف اپنے مطلب کی باتیں الگ کر کے سن رہے ہیں۔ اسی طرح یہ نظام بھی انٹرنیٹ پر ملنے والی غیر ضروری معلومات کو نظر انداز کر دے گا۔ ہاسےگاوا کہتے ہیں: ’’انٹرنیٹ پر معلومات کا ایک وسیع سمندر موجود ہے، تاہم اب تک ان معلومات سے صرف انسان ہی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ SOINN کا حامل روبوٹ اپنے دماغ کو انٹرنیٹ سے منسلک کر لے گا۔‘‘
ہاسے گاوا کو امید ہے کہ اس نظام کے حامل روبوٹس نہ صرف گھر میں بطور مددگار استعمال کیے جا سکیں گے بلکہ ان سے دیگر بڑے کام بھی لیے جا سکیں گے، مثلاﹰ مختلف ذرائع سے حاصل شدہ اعداد و شمار اور سڑک پر موجود ٹریفک کو دیکھتے ہوئے مناسب طور پر ٹریفک سگنلز کنٹرول کرنا، یا مختلف ذرائع اور سنسرز کے ذریعے حاصل شدہ معلومات کا تجزیہ کر کے قبل از وقت زلزلے کا پتہ لگانا۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی