سویڈن سے اسّی ہزار تارکین وطن کی ملک بدری کا منصوبہ
28 جنوری 2016سویڈن کے وزیر داخلہ آندرس اُوگومان نے ایک مقامی خبر رساں ادارے کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ سٹاک ہوم حکومت سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے بعد 80 ہزار تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
اُوگومان کا کہنا تھا، ’’ابھی ساٹھ ہزار تارکین وطن کی بات ہو رہی ہے لیکن یہ تعداد اسیّ ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملکی حکومت نے قومی پولیس اور تارکین وطن سے متعلق سویڈش اداروں کو اس ضمن میں تیاریاں مکمل کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
یورپ میں تارکین وطن کے موجودہ بحران کے دوران صرف گزشتہ برس ہی ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد تارکین وطن پناہ کی تلاش میں سویڈن پہنچے تھے۔ رپورٹوں کے مطابق سویڈش حکام ان میں سے 45 فیصد مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر چکے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ پناہ گزینوں سے رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے وطن واپس جانے کی درخواست کی جائے گی تاہم رضاکارانہ طور پر واپسی سے انکار کرنے والوں کو جبری طور پر ملک بدر کر دیا جائے گا۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی جمعرات 28 جنوری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق حکام نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جانے کے بعد زیادہ تر مہاجرین حکام کی نظروں سے غائب ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
سٹاک ہوم حکومت پہلے ہی افغانستان اور مراکش کے ساتھ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔
سویڈن کی مجموعی آبادی 9.8 ملین نفوس پر مشتمل ہے اور 2015ء میں وہاں اتنے زیادہ مہاجرین نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دی تھیں کہ ملکی آبادی اور مہاجرین کی تعداد کے اعتبار سے یہ یورپی یونین کی کسی رکن ریاست میں ریکارڈ کی جانے والی سب اونچی شرح تھی۔
سویڈش وزیر داخلہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ حال ہی میں سویڈن میں پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں کام کرنے والی ایک بائیس سالہ خاتون، الیگزینڈرا مظہر کو ایک پندرہ سالہ تارک وطن نے چاقو سے حملہ کر کے قتل کر دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد سویڈن میں بہت بڑی تعداد میں نئے تارکین وطن کی آمد کے حوالے سے موجودہ بحث اور بھی شدت اختیار کر گئی تھی۔