1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاست میں آ کر متنازعہ نہیں بننا چاہتا، ڈاکٹر قدیر خان

31 اکتوبر 2011

پاکستان کے ایٹمی سا ئنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ ملک کی کئی سیاسی جماعتوں نے انہیں اپنے ساتھ ملانے کے لیے ان سے رابطہ کیا ہے تاہم وہ سیاست میں آ کر خود کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتے۔

https://p.dw.com/p/132Kb
ڈاکٹر عبدالقدیر خانتصویر: Abdul Sabooh

ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے عمران خان کے ساتھ اپنی ملاقات میں کوئی وعدہ نہیں کیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت ایک ٹاسک فورس بنا کر اگر ان سے کام لینا چاہے تو وہ ملک کے توانائی کے بحران کے حل، زراعت کی ترقی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے بھرپور رہنمائی اور مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

Pakistanischer Atomphysiker Abdul Khan
تصویر: AP

’’میرے پاس قاضی حسین احمد آئے تھے۔ میں نے انہیں بھی کہا کہ میں دریا میں تیرتی ہوئی ایک مچھلی کی مانند ہوں۔ آپ اب مجھے اگر ایکوئریم میں ڈال دیں گے تو پھر میں اس ایکوئریم کے مالک کا ہی ہو کر رہ جاؤں گا، باقیوں کا نہیں رہوں گا۔‘‘

ڈاکٹر قدیر کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ان سے رابطہ کر کے انہیں سیاست میں آنے کی دعوت دی تھی۔ ’’آج لوگ صوبائی، لسانی اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ کل اگر میں تحریک انصاف میں شامل ہو گیا تو پھر نواز لیگ والے اور پی پی پی والے مجھے گالیاں دیں گے۔ اس لیے ’موجودہ حالات میں سیاست میں آنا اپنے اوپر غلاظت ڈلوانے کے مترادف ہے‘۔

ڈاکٹر قدیر نے بتایا کہ وہ اپنے کالم میں بھی بدعنوانیوں کے خلاف لکھتے رہتے ہیں تاکہ ’لوگوں‘ کو شرم آئے مگر جہاں غیرت کا فقدان ہو، وہاں شرم کہاں سے آئے گی۔

Pakistan Imran Khan
تحریک انصاف کے بانی عمران خانتصویر: Abdul Sabooh

ان کے بقول پچھلے چار سالوں میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق جنرل پرویز مشرف نے بے ایمانی سے اربوں روپے بنائے۔ لوگ آمر کو گالیاں دیتے تھے۔ آج کے دور سے موازنہ کریں تو لگتا ہے کہ آمر کا دور سنہرا زمانہ تھا۔ اب تو چوروں اور لٹیروں کا زمانہ آ گیا ہے۔

ڈاکٹر قدیر کے بقول پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بھی صحیح لوگ موجود تھے لیکن جب اوپر خراب لوگ بیٹھے ہوں تو نیچے والے نتائج نہیں دے پاتے۔ ان کے بقول نواز شریف بھی جذباتی باتیں تو کرتے ہیں لیکن ملکی مسائل کا حل ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ ان کے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں چند ’نیرو مائنڈڈ‘ لوگوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہ انہی کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور انہوں نے دو مرتبہ ایسے لوگوں کو بھگتا بھی ہے۔ اگر نواز شریف یا آصف زرداری بیس پچیس ایماندار لوگوں کو ساتھ ملا کر لوٹ مار اور چوری چکاری کا موجودہ رجحان ختم کر دیں، تو ملکی حالات چھ مہینے میں بہتر ہو سکتے ہیں۔

Pakistan Raza Gilani Nawaz Sharif Opposition Regierung Islamabad
وزیر اعظم گیلانی اور نواز شریفتصویر: Press Information Department/HO/AP/dapd

ڈاکٹر قدیر کے مطابق عمران خان کا دامن صاف ہے، وہ محنت کر رہے ہیں، نوجوان نسل ان کو پسند بھی کرتی ہے لیکن ان کے پاس بھی حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تجربہ نہیں ہے۔ ان کی صفوں میں ابھی دیانتدار اور اہل لوگ مطلوبہ تعداد میں نظر نہیں آ رہے۔ ان کے بقول عمران خان کی اصل آزمائش اس وقت ہو گی جب انہیں اقتدار ملے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قوم کی خدمت کر پاتے ہیں یا نہیں؟ ابھی ان کی تقریروں میں جذبات کا عنصر بھی موجود ہے۔

عوام کو تھانیدار کے انتخاب کا حق دینے کی عمران خان کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھانیداری ایک سرکاری عہدہ ہے۔ اس پر دیانتدار آدمی لگایا جانا چاہیے۔ اگر کسی علاقے کے عوام نے کسی چور اور ڈاکو کو بطور تھانیدار چن لیا تو پھر کیا ہو گا۔ ان کے بقول صوبوں کے اندر انہی صوبوں کی پولیس ہونی چاہیے۔ پنجاب کے پولیس افسر کو بلوچستان اور پشاور کے پولیس افسر کو سندھ کا آئی جی نہیں لگایا جانا چاہیے۔

Oppositionstreffen in Pakistan
اپوزیشن رہنماتصویر: AP

ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ جعلی رسیدیں بنا کر سرکاری وسائل لوٹنے کا عمل جاری ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ کے ذریعے بانٹے جانے والے پینتیس ارب روپے اگر سیلاب زدہ علاقوں پر لگائے جاتے تو لوگوں کو چھت بھی مل جاتی اورانہیں ملا ہوا ریلیف نظربھی آتا۔ ان کے بقول کراچی کے نواحی علاقوں میں اب بھی ایسے سندھی لوگ موجود ہیں جو جانوروں کے ساتھ مل کر جوہڑ کا گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کیسے حکمران ہیں جنہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آتا ؟ ’’کیا یہ ان کا کام نہیں ہے کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر عیاشیاں کرنے کی بجائے باہر نکلیں، دورے کریں، پتہ کریں کہ سکول کیسے بن رہے ہیں، اساتذہ بچے کیسے پڑھا رہے ہیں؟‘‘

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بقول جو صوبے پرائمری سکول نہیں چلا سکے، انہیں اختیارات کی منتقلی کے نام پر ہائر ایجوکیشن کمیشن تحلیل کر کے اعلٰی تعلیم کا نظام چلانے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: عصمت جبیں