سیاستدان قربانیوں کے معترف نہیں، فوجیوں کا شکوہ
25 اگست 2011کیپٹن قاسم عباس افغان سرحد کے نزدیک چھ ماہ تک طالبان کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے کہ عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر ان کے قافلے پر حملہ کر دیا۔ حملے کے دوران ان کی گاڑی نوے فٹ گہری کھائی میں جا گری، جس سے ان کے دماغ پر شدید چوٹیں آئیں اور اب ان کے لیے بات چیت کرنا اور چلنا پھرنا بھی ایک جہدِ مسلسل ہے۔
کیپٹن قاسم عباس ان بہت سے پاکستانی فوجیوں میں شامل ہیں، جو راولپنڈی کے عسکری بحالی مرکز میں زیرِ علاج ہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے ان کی حالت زار پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بہت سے سیاستدان اس غیر مقبول جنگ کا حصہ بننے سے کتراتے ہیں، جو بہت سے پاکستانیوں کے نزدیک امریکہ کی جنگ ہے۔
گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے نتیجے میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ہزاروں طالبان عسکریت پسند سرحد پار کر کے پاکستان آ گئے اور پاکستانی طالبان اور ان کے اتحادیوں میں ضم ہو گئے۔ سخت امریکی دباؤ کے بعد پاکستانی فوج نے 2004ء میں مقامی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی، جنہوں نے اس کے جواب میں پورے ملک میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے خلاف سینکڑوں حملوں کا محاذ کھول دیا۔
کیپٹن قاسم عباس ہر روز تین گھنٹے ہسپتال کے جم میں گزارتے ہیں تاکہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کر سکیں۔ ان کے جسم کا بایاں حصہ مفلوج ہے۔ ہسپتال میں مصنوعی اعضاء لگوانے کے لیے آئے ہوئے کیپٹن قاسم نثار کا قصہ بھی انہی جیسا ہے۔ وہ خیبر پختونخوا کے ایک اور علاقے میں جاری آپریشن میں حصہ لے رہے تھے کہ غلطی سے ان کا پاؤں زمین میں دبے ہوئے ایک بم پر پڑ گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں ان کی ایک ٹانگ اڑ گئی، جبکہ دوسری کو گھٹنے کے نیچے سے کاٹ دیا گیا۔ تاہم انہیں طالبان کے خلاف جنگ میں حصہ لینے پر کوئی ملال نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے اپنے ملک کی خاطر جو کچھ کیا ہے، میں اس پر مطمئن ہوں اور اگر مجھے اپنے ملک کی خدمت کرنے کے لیے اس علاقے میں دوبارہ بھی جانا پڑے تو انشاء اللہ میں ضرور جاؤں گا۔‘‘
بحالی مرکز کے سربراہ میجر جنرل اختر وحید کا کہنا ہے کہ سیاسی قوتوں کو ان فوجیوں کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ اپریل میں جب انہوں نے امریکہ کے والٹر ریڈ آرمی میڈیکل سینٹر کا دورہ کیا تو وہاں عراق اور افغانستان میں زخمی ہونے والے فوجیوں سے ملاقات کے لیے آنے والے سیاستدانوں، سرکاری حکام اور صحافیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
پاکستانی طالبان کے خلاف جنگ ملک میں ایک حساس مسئلہ ہے اور بین الاقوامی تحقیقی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے رواں سال کے اوائل میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا تھا کہ صرف 37 فیصد پاکستانی ملکی قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی کے حق میں ہیں۔
میجر جنرل وحید نے بتایا کہ زخمی فوجیوں کی تعداد بڑھنے کے مقابلے میں سہولیات کم ہیں اور آئندہ چند سالوں میں اس مرکز میں توسیع کر کے وہاں موجود گنجائش 100 بستروں سے بڑھا کر 150 بستروں تک کر دی جائے گی۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک