سینکیانگ میں روزے رکھنے پر پابندی
2 جولائی 2014آن لائن شائع ہونے والے انتباہی نوٹس میں مسلمانوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں کھانے پینے سے اجتناب نہ برتیں جبکہ بہت سے اسکولوں کے مسلمان طالب علموں نے بتایا ہے کہ اُن کے اساتذہ نے انہیں کھُلے عام پانی پینے پر مجبور کیا۔
سینکیانگ ایغور نسل کے مسلم باشندوں اور ہان نسل کے چینیوں کے مابین نسلی فسادات کا گڑھ ہے۔ اس صوبے کی کُل آبادی 21.8 ملین ہے جس میں آٹھ ملین مسلمان شامل ہیں۔ بہت سے ایغور باشندوں کی طرف سے شکایات سامنے آتی ہیں کہ انہیں ثقافتی اور مذہبی جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اقتصادی اعتبار سے پسماندہ مگر تیل کے قدرتی ذخائر سے مالا مال اس علاقے کے ہان نسل کے چینی باشندوں کو صوبے میں ترقی کے مواقع بہت زیادہ میسر ہیں اور یہاں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
گزشتہ مہینوں کے دوران اس علاقے میں متعدد حملے ہوئے جن میں درجنوں شہری ہلاک ہو گئے۔ چینی حکام نے ان واقعات کا ذمہ دار اسلامی انتہا پسندوں اور ایغور علیحدگی پسندوں کو ٹھہرایا۔
ہیومن رائٹس گروپ کے مطابق 2013ء سے اب تک ایغور مسلمانوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین تصادموں میں 300 افراد ہلاک ہو چُکے ہیں۔
آج بُدھ کو سینکیانگ کے ايک علاقے میں اسکولوں، سرکاری ایجنسیوں اور متعدد لوکل پارٹی آرگنائزیشنز کی ویب سائٹس پر چھپنے والے بہت سے بیانات میں کہا گیا ہے کہ روزہ رکھنے پر پابندی طالب علموں کے فائدے اور اُن کے تحفظ کے لیے لگائی گئی ہے۔ نیز اس کا مقصد اسکولوں اور سرکاری دفاتر کو مذہب کے فروغ کے لیے استعمال کرنے سے بچانا ہے۔ ویب سائٹس پر شائع ہونے والے بیانات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرکاری طور پر لادین حکمران پارٹی کے اراکین کو بھی روزے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
سینکیانگ کے ایک تھرڈ گریڈ اسکول کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے،" کسی بھی ٹیچر کو مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور طالب علموں کے اذہان میں مذہبی سوچ ڈالنے یا انہیں کسی طرح کی مذہبی سرگرمی میں حصہ لیے کی ترغیب دلانے کی اجازت نہیں ہے" ۔
ماضی میں بھی روزے رکھنے پر پابندی عائد کی جاتی رہی ہے۔ تاہم اس سال اس مہم میں غیر معمولی شدت دیکھی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کا کہنا ہے کہ سینکیانگ میں مسلم انتہا پسندوں اور اُن کے غیر ملکی دہشت گرد ساتھیوں کی طرف سے شورش بپاء کی جا رہی ہے۔ بیجنگ حکومت سینکیانگ میں ہونے والے تمام دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ دار ایغور مسلمانوں کو ٹھہراتی ہے۔ اسی سبب سینکیانگ میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔
گزشتہ برسوں میں سینکیانگ میں فسادات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ حکومت علیحدگی پسند ایغور باشندوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے جبکہ ایغور گروپ سے تعلق رکھنے والے مسلم باشندوں کا کہنا ہے کہ مذہبی آزادی پر لگی قدغن اور ان کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک اس کی وجہ بنا ہے۔ ایغور مسلمانوں کے بقول انہیں اپنے بچوں کو مساجد لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔
22 مئی کو سینکیانگ کے علاقائی دارالحکومت اُرمچی کی ایک سبزی مارکیٹ پر چار افراد نے بم پھنکے تھے جس کے نتیجے میں 43 افراد لقمہ اجل بنے تھے۔