شام: اخوان المسلمین بشار الاسد کے مخالفین کی حامی
12 اپریل 2011اس ممنوعہ اسلامی تنظیم کے رہنما محمد ریاض شقفہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں اور شامیوں کے ملک میں آزادی کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔
محمّد ریاض شقفہ نے یہ انٹرویو سعودی عرب سے دیا جہاں وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اخوان المسلمین کی حکومت کو 1980 کی دہائی میں اس وقت کالعدم قرار دے دیا گیا تھا جب اس تنظیم نے بشار الاسد کے والد اور پیش رو صدر حافظ الاسد کے خلاف مسلح جد و جہد شروع کی تھی، اور جس کو حافظ الاسد کی حکومت نے سختی کے ساتھ کچل دیا تھا۔ اخوان کی رکنیت اختیار کرنے پر 1980 کے ایک قانون کے مطابق موت کی سزا تجویز کردی گئی تھی۔
شقفہ کا اس انٹرویو میں کہنا تھا: ’ہم شامی عوام کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ ہماری شام میں کوئی تنظیم موجود نہیں ہے، جس کی وجہ تین عشرے پہلے کا قانون ہے۔ تاہم شام میں اب بھی ہماری جماعت کی مقبولیت ہے‘۔
گزشتہ برس اخوان المسلمین نے صدر بشار الاسد کے ساتھ اٹھارہ ماہ کی صلح بندی ختم کردی تھی۔
اخوان المسلمین کے رہنما شقفہ نے ان خبروں کی تردید کی جن میں کہا گیا تھا کہ ان کی تنظیم کے ارکان نے شام کی خفیہ پولیس کے ایک سینئر اہلکار کے ساتھ دو ہفتے قبل استنبول میں ملاقات کی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شامی صدر فرقہ واریت کو ہوا دے کر اپنے اقتدار میں طوالت کے خواہش مند ہیں تاہم ان کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوگی۔
اانہوں نے اس انٹرویو میں کہا کہ ان کی تنظیم لوگوں کی آزادی اور کثیرالجہتی معاشرتی وجود پر یقین رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ شرقِ اوسط کے کئی ممالک کی طرح شام میں بھی گزشتہ چند ماہ سے حکومت مخالف مظاہرے کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد ملک میں بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ ہے اور مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں معاشی اور سیاسی اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک