شام اور عراق کے ساتھ اردن کی سرحد ’عسکری زون‘ قرار
22 جون 2016گزشتہ روز شام اور اردن کے سرحدی علاقے میں ایک خود کش بمبار نے اردن کے چھ فوجی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اردن کی فوج کے مطابق خود کش بمبار اردن کی سرزمین پر رقبان سرحدی علاقے سے انسانی امداد پہنچانے کے لیے ایک راستے کو استعمال کرتے ہوئے داخل ہوا تھا اور اس نے ایک فوجی چوکی پر پہنچ کر اپنے آپ کو اڑا دیا۔
اردن کے بادشاہ عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ اس حملے کی ذمہ داری اب تک کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے تاہم اردن امریکی قیادت میں شام اور عراق میں اسلام اسٹیٹ کے خلاف عسکری مہم میں شامل ہے۔ اس حملے سے دو ہفتے قبل ایک حملہ آوار نے اردن کی خفیہ ایجنسی کے پانچ اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس سے پہلے شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کارروائیوں میں مصروف اردن کا ایک جنگی طیارہ بھی شام میں گر چکا ہے، اس طیارے کے پائلٹ کو شدت پسندوں نے قید کر لیا تھا اور بعد میں اسے زندہ جلا دیا گیا تھا۔
تاہم اس تازہ حملے کے بعد اردن نے شام اور عراق کے ساتھ اپنی صحرائی سرحد کو ’’عسکری علاقہ‘ قرار دے دیا ہے اور عام شہریوں کی اس علاقے میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اردن کی فوج نے ایک بیان میں کہا، ’’ہمیں پیشگی اطلاع دیے بغیر کوئی بھی گاڑی اگر اس سرحدی علاقے میں شام سے اردن داخل ہوئی تو اسے دشمن قرار دیا جائے گا۔‘‘ اس حوالے سے اردن کی حکومت کے ترجمان محمد مومانی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’اس اقدام سے شامی مہاجرین کے کیسسز متاثر نہیں ہوں گے۔‘‘
عمان میں امریکا کے سفارت خانے نے بھی اس خودکش حملے کی مذمت کی ہے اور اپنے اتحادی اردن کو بھر پورتعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
واضح رہے کہ شام میں جاری جنگ کے باعث کئی شامی مہاجرین اردن داخل ہو رہے ہیں۔ اس برس اب تک 60000 شامی روقبان پہنچے ہیں۔ اردن کا کہنا ہے کہ اس نے 1.4 ملین شامی مہاجرین کو پناہ دی ہوئی ہے اور اردن کو ان مہاجرین کے باعث شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ عمان حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اردن پہنچنے والے شامی مہاجرین کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے تاکہ ایسے افراد کی نشاندہی ہوسکے، جن کا تعلق اسلامک اسٹیٹ یا القاعدہ سے ہے اور جو مہاجرین کے ساتھ اردن میں داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
کچھ اندازوں کے مطابق اردن کے چار ہزار شہری عراق اور شام کے شدت پسند گروہوں میں شامل ہو چکے ہیں۔