شام سے فرار ہو کر اردن پہنچنا بہت مہنگا ہو گیا
12 مارچ 2012شام کے ایک سرگرم کارکن ابو اعلٰی نے ایک لاکھ ڈالر کے عوض اپنی موت کا سرٹیفکیٹ خریدا ہے، جسے وہ اپنی آزادی کا ٹکٹ سمجھتے ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس سرٹیفیکیٹ کے نتیجے میں شام کی سکیورٹی اور عسکری انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ سمجھیں گی کہ وہ مارے جا چکے ہیں اور یوں اُنہیں اُن کے شکنجے سے بچنے میں مدد ملے گی۔
شام کے حالات سے مجبور ہو کر اردن کا رُخ کرنے والے بیشتر افراد کو اب سرحدی محافظوں کو رشوت دینا پڑتی ہے، جس کی مالیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ابو اعلٰی نے دعوٰی کرتے ہوئے کہا، ’اب آپ کسی اہلکار یا فوجی کی مٹھی گرم کیے بغیر شام کے ایک محلے سے دوسرے محلے تک بھی نہیں جا سکتے‘۔
شام کے سرگرم کارکنوں اور مہاجرین کا کہنا ہے کہ شامی حکام کی جانب سے اردن کے ساتھ ملنے والی سرحد کی نگرانی سخت کرنے کے بعد اب حمص اور درعا سے فرار ہونے والوں کے لیے یہ قیمت پانچ ہزار ڈالر فی کس تک جا پہنچی ہے۔
مہاجرین کو سرحد تک لے جانے والی نجی گاڑیوں کے کرایے ایک سو ڈالر فی کس تک پہنچ چکے ہیں۔
اردن کے ایک بس ڈرائیور احمد عامر نے بتایا کہ گزشتہ برس مارچ کے بعد سے اردن کو فرار ہونے والے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث کئی بس ڈرائیوروں نے اپنا باقاعدہ روٹ تبدیل کر لیا ہے اور وہ ان مہاجرین کو لے جانے کے عوض بھاری رقوم کما رہے ہیں۔
عمار کے مطابق ان کا یہ کاروبار تین مارچ کو اس وقت اچانک رک گیا جب شامی فورسز نے ان کی بس پر فائرنگ کر دی کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ وہ باغیوں اور منحرفین کو اردن لے کر جا رہا ہے۔ تاہم اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
سرحد پر شامی فورسز کی موجودگی کے بعد انسانی اسمگلر ان افراد کو اردن پہنچانے کے لیے مختلف اور دشوار راستے اختیار کر رہے ہیں اور بعض صورتوں میں تو اس کے اخراجات بیس ہزار ڈالر فی خاندان تک ہیں۔
شامی مہاجرین کو سہولیات فراہم کرنے والی ایک اہم سوسائٹی کتاب و سنہ کے ڈائریکٹر زیاد حماد نے بتایا، ’ابتدا میں اردن آنے والے بیشتر شامی باشندوں کے پاس اتنی رقم ہوتی تھی کہ وہ پانچ چھ ماہ تک اپنا گزارہ چلا سکتے تھے۔ اب آنے والے افراد کی بڑی تعداد کے پاس بمشکل ہی ایک ماہ کے کرایے کی رقم ہوتی ہے۔‘
اردن کے سرحدی علاقوں میں خوراک اور کرایوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ہجرت کر کے آنے والے بہت سے افراد اب اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔
یاسر ابو خلیل نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی پچاس ہزار ڈالر اس سفر پر لگا دی مگر اب ان کے پاس نہ اپنا پاسپورٹ ہے اور نہ ہی وہ کام تلاش کر سکتے ہیں۔ اپریل میں ان کے مالک مکان نے بھی انہیں بیدخل کرنے کا نوٹس دے رکھا ہے۔ انہوں نے کہا، ’اگر میرے پاس پیسے ہوں تو میں دوبارہ اسمگل ہو کر واپس درعا جانا چاہوں گا۔‘
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی