شام میں عسکری تعاون پر ’روس اور امریکا کا اتفاق‘
19 جون 2016روسی وزارت دفاع کے مطابق واشنگٹن اور ماسکو کے فوجی عہدے داروں کے درمیان ایک ویڈیو کانفرنس ہوئی جس میں دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ شام میں جاری اپنی اپنی عسکری مہمات کو کچھ اس طرح جاری رکھیں گے کہ اس سے ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچے۔
امریکا کی جانب سے اس بیان کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ ایک روز قبل ہی امریکی وزارت دفاع نے روس پر تنقید کی تھی کہ اس نے صدر بشار الاسد کے مخالف اور امریکی حمایت یافتہ باغیوں پر حملے کیے تھے۔ امریکا روس کو انتباہ کر چکا تھا کہ وہ اس عمل سے باز رہے۔
گزشتہ برس روس کی شامی تنازعے میں براہ راست مداخلت سے اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ شام کا بحران کسی وسیع تر بین الاقوامی جنگ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے روسی اہل کار کوناشینکوف کا کہنا تھا، ’’روسی وزارت دفاع کئی ماہ سے امریکا کو یہ مشورہ دے رہی ہے کہ وہ ماسکو کو ایک مربوط نقشہ پیش کرے کہ کہاں کہاں اس کی افواج اور حامی باغی متحرک ہیں۔‘‘
روسی مہم جوئی کا مقصد
گزشتہ برس ستمبر کے مہینے سے روس شام میں فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جن کا مقصد بقول بعض تجزیہ کاروں کے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کو بچانا ہے۔ مغربی ممالک اسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں، تاہم روس کی شام میں مداخلت کے بعد صورت حال مزید پیچیدہ اور مشکل ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ سن انیس سو اناسی میں افغانستان میں سابق سوویت یونین کی مہم جوئی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ روس بیرون ملک کسی فوجی آپریشن میں اس طرح سے شریک ہے۔ اس بات سے ماہرین یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ روس عالمی اسٹیج پر اپنی کھوئی ہوئی سپر پاور کی حیثیت کا احیاء کرنا چاہتا ہے۔
در حقیقت شام میں روسی عسکری کارروائیوں کا ایک پہلو علامتی بھی ہے۔ اس بارے میں روس سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار گریگوری میلامیدوف لکھتے ہیں: ’’میری سمجھ سے باہر ہے کہ بحیرہء کیسپیئن سے فضائی حملے کرنے کا فوجی مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ ہم نے اپنی طاقت کا اظہار کیا۔ مگر کس کے خلاف؟ اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف؟ نہیں۔ سب سے بڑھ کر امریکیوں کے خلاف۔‘‘
تھنک ٹینک کارنیگی ماسکو سینٹر سے وابستہ الیگزانڈر باؤنوف کہتے ہیں: ’’پوٹن کبھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ ایک ایسی ریاست کی سربراہی کریں جس کی دنیا میں کوئی نہیں سنتا۔‘‘
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا الزام ہے کہ روس کے شام میں حملوں کا ہدف شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نہیں بلکہ صدر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار باغی ہیں۔