1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں ہلاکت خیز کیمیائی حملوں کو سال ہو گیا

مقبول ملک21 اگست 2014

شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں حکومت مخالف باغیوں کے زیر قبضہ غوطہ اور معادمیہ کے علاقوں میں کیمیائی ہتھیاروں سے ہلاکت خیز حملے کو آج جمعرات کے روز ٹھیک ایک سال ہو گیا۔ ان حملوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1Cytq
تصویر: Reuters

خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق زہریلی اعصابی گیس سارین کے ساتھ کیے گئے ان حملوں میں مارے جانے والے سینکڑوں شامی شہریوں کے خاندان آج بھی اپنے لیے انصاف کے انتظار میں ہیں۔ بیروت سے آمدہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ یہ کئی سو متاثرہ شامی خاندان ابھی تک بس یہ مطالبے ہی کرتے نظر آتے ہیں کہ اس خوفناک قتل عام کے ذمہ دار عناصر کو سزا دی جائے۔

UN Inspektoren in Syrien 26.08.2013
سارین گیس کے حملے کے بعد چند روز کے اندر اندر بین الاقوامی تفتیشی ماہرین شام پہنچ گئے تھےتصویر: picture-alliance/dpa

نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ آج سے ٹھیک ایک سال قبل 21 اگست 2013ء کے روز علی الصبح شامی دارالحکومت دمشق کے مضافات میں اس وقت با‌غیوں کے زیر قبضہ علاقوں غوطہ اور معادمیہ میں راکٹوں کے ذریعے انتہائی زہریلی اعصابی گیس سارین کے ساتھ جو حملے کیے گئے تھے، ان میں سینکڑوں انسانوں کی ہلاکت کے باعث اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے انہیں ’’21 ویں صدی میں وسیع تر ہلاکت کا سبب بننے والے ہتھیاروں کے بد ترین استعمال‘‘ کا نام دیا تھا۔

شامی اپوزیشن اور امریکا سمیت اس کے اتحادی ملکوں نے کیمیائی ہتھیاروں سے ان حملوں کی ذمے داری صدر بشار الاسد کی حکومت کے سر ڈالی تھی۔ اس کے برعکس صدر بشار الاسد کی حکومت نے ایسے الزامات کی بھرپور تردید کرتے ہوئے ان کا ذمے دار شامی باغیوں کو قرار دیا تھا۔

غوطہ اور معادمیہ میں ان وسیع تر ہلاکتوں کے بعد اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم فوری چھان بین کے بعد اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ سارین گیس کے ساتھ یہ راکٹ حملے ایک ایسے علاقے سے کیے گئے تھے جہاں شام کے سرکاری دستوں کے اڈے قائم ہیں۔ کیمیائی ہتھیاروں کے ان حملوں کی تحقیقات کرنے والے عالمی ادارے کے ماہرین کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ یہ تعین بھی کرتے کہ ان حملوں کا ذمے دار کون تھا۔

Syrien mutmaßlicher Giftgaseinsatz in Ghouta
تصویر: Reuters

پھر امریکا میں اوباما انتظامیہ نے یہ دھمکی بھی دے دی تھی کہ وہ شام میں حکومتی فورسز کو سزا دینے کے لیے فضائی حملے بھی کر سکتی ہے۔ اس پر بین الاقوامی سطح پر زبردست سفارتی کوششیں شروع ہو گئی تھیں، جن کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ صدر بشار الاسد امریکا اور روس کی وساطت سے طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت اس بات پر تیار ہو گئے تھے کہ شام کی ملکیت تمام کیمیائی ہتھیار تلف کر دیے جائیں۔

اس کے بعد سے اب تک گزشتہ گیارہ مہینوں کے دوران اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم OPCW کے ایک مشترکہ مشن نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شامی حکومت کی ملکیت تمام اعلان شدہ کیمیائی ہتھیاروں کو جمع کر کے تلفی کے لیے شام سے باہر پہنچا دیا گیا۔ کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے کی بین الاقوامی تنظیم او پی سی ڈبلیو کے مطابق اب تک شام کی ملکیت ایسے کیمیائی ہتھیاروں میں سے 80 فیصد سے زائد کو تلف کیا جا چکا ہے۔

نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر ندیم حوری کے مطابق یہ امر خوش آئند ہے کہ شامی کیمیائی ہتھیاروں کا 80 فیصد سے زائد حصہ اب تک ناکارہ بنایا جا چکا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سے ’ان سینکڑوں شامی شہریوں یا ان کے خاندانوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا جو ٹھیک ایک سال پہلے آج ہی کے دن مارے گئے تھے‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں